اصل خبر ۔ ابویحییٰ
یہ حادثے کے شکار ایک ہوائی جہاز کی تصویر تھی۔ طیارے کا ملبہ اور ہلاک شدگان کی لاشیں جائے حادثہ پر بکھری پڑیں تھیں۔ آگ بجھانے والا عملہ شاید کچھ جلدی آگیا تھا۔ اس لیے ان لاشوں کے جھلسنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ لیکن آگ بجھنے سے قبل ان کے لباس کے علاوہ سر کے بال اور اور جسم کی کھال کو بھی چٹ کرچکی تھی۔
یہ ایک بہت بھیانک تصویر تھی۔ مگر اس تصویر میں ایک یاد دہانی بھی تھی۔ یہ یاد دہانی جہنم کی اُس آگ کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے تیار کر رکھی ہے۔ سورہ معارج میں ہے کہ یہ وہ آگ ہے جس کی لپٹ ہی چمڑی ادھیڑ ڈالے گی۔ وہ پکار پکار کر ان لوگوں کو بلائے گی جو حق کو نظر انداز کرتے اور مال کو جمع کرتے ہوں گے۔
عام طور پر جہاز میں آسودہ حال لوگ سفر کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے مالداروں کے طبقے میں شامل ہونا زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر مال جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مال اور اس سے ملنے والی راحتیں اور آسانیاں ان کی کھال کو موٹا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ بے حس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ انہیں خدا یاد رہتا ہے اور نہ روز قیامت۔ وہ ان سے بے نیاز ظلم و عدوان کی زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ زندگی کا جہاز ایک روز اچانک بغیر کسی اطلاع کے زمیں بوس ہوجاتا ہے۔
پھر انسان رہ جاتا ہے اور وہ آگ جس کی پسندیدہ غذا یہ موٹی کھال ہوتی ہے۔ اور آج تو سائنس نے یہ بتا دیا ہے کہ آگ کی جلن کا سارا عذاب صرف یہ کھال محسوس کرتی ہے۔ اسی لیے جب جب یہ کھال جھلس جائے گی اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ پیدا کر دیں گے ۔(النساء 56:4)
قرآن نازل ہی اس لیے ہوا تھا کہ حرام کھا کر مال اکٹھا اور کھال کو موٹا کرنے والوں کو اس آگ کی خبر دیدے۔ جب لوگ قرآن نہیں پڑھتے تو کوئی طیارہ گر جاتا ہے تاکہ یہ خبر اخبار میں آجائے۔ مگر افسوس کہ لوگ اخبار میں بھی سب کچھ پڑھتے ہیں، اصل خبر نہیں پڑھتے۔