اپنے اعمال آج تولیے ۔ ابویحییٰ
’’آج میں آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
عارف نے مجلس کے آغاز میں جب یہ بات کہی تو ہر سننے والے والا ہمہ تن گوش ہوگیا۔ گرچہ اس سے قبل بھی ان کی پوری توجہ عارف ہی کی طرف تھی۔ وہ ایک وقفے کے بعد دھیرے سے بولے:
’’آج میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِسی دنیا میں رہتے ہوئے آپ جان سکتے ہیں کہ روزِ قیامت میزان میں آپ کا نیکی کا پلڑا بھاری ہوگا یا گناہوں کا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دوبارہ ٹھہر گئے۔ اس وقفے کا فائدہ اٹھا کر ایک صاحب گویا ہوئے:
’’جس کے نیک عمل گناہوں سے زیادہ ہوں گے اسی کا میزان بھاری ہوگا۔ کیا اس کے علاوہ بھی اعمال تولنے کا کوئی طریقہ ہے؟‘‘
’’آپ نے درست کہا۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وہاں اعمال کی گنتی ہی نہیں ہوگی بلکہ ان کی تول بھی ہوگی۔ پہلے مرحلے میں نامہ اعمال پیش ہوگا۔ اس میں ہر عمل لکھا ہوا ہوگا۔ مگر میزان کا معاملہ جدا ہے۔ میزان میں تو ان اعمال کا وزن ہوگا۔ اسی وزن پر انسان کی نجات، بلندی درجات یا پکڑ کا حتمی فیصلہ ہوگا۔؟ ‘‘
عارف یہ کہہ کر رکے تو ہر چہرے پر ایک سوال پیدا ہوچکا تھا۔ عارف دوبارہ بولے:
’’میں یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ جیسے نیک لوگ اپنے نیک اعمال کی کثرت کے باوجود قیامت کے دن کہیں محرومی کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس لیے اللہ کی تول سے قبل آج ہی اپنی تول کرلیں۔‘‘
یہ کہہ کر عارف پھر رکے تو ان کے قریب بیٹھے ایک شخص نے ذرا گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔
’’جناب! آج تو آپ بہت ڈرا رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں! مگر یہ علم ضروری ہے۔ یہ علم نجات کے لیے بھی ضروری ہے اور بلندی درجات کے لیے بھی ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن، خدا نہ کرے ہم کسی محرومی کا شکار ہوجائیں۔‘‘
یہ کہہ کر عارف نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک حاضرین پر نظر ڈالی اور بولے:
’’ہم اس لیے محروم رہ جائیں گے کہ روزِ قیامت ہمارے نامہ اعمال میں ہر نیکی ہوگی۔ نماز، حج، روزہ، زکوٰۃ۔ مگر ہمارے پاس ان اعمال کی روح نہیں ہوگی۔ چنانچہ روز قیامت جب ہمارے بہت سارے اعمال کو میزان میں رکھا جائے گا تو معلوم ہو گا کہ ان کا وزن تو بہت کم ہے۔ دوسری طرف ہمارے گناہوں کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہوگا۔‘‘
’’مگر گناہ تو تھے ہی نہیں۔ ہم نے زنا نہیں کیا۔ قتل نہیں کیا۔ زمین میں فساد نہیں کیا۔‘‘
ایک صاحب نے کچھ احتجاجی لہجے میں گفتگو میں مداخلت کی۔
’’گناہ کی شکل نہیں تھی۔ مگر اسپرٹ پوری طرح موجود تھی۔‘‘
یہ جواب دیتے ہوئے عارف کا لہجہ ایک دم سے سخت ہوگیا۔
’’ہم نے جسمانی طورپر کسی عورت سے زنا نہیں کیا۔ مگر ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے دل اور نگاہ سے کتنی ہی اداکاراؤں، ماڈلوں اور ارد گرد پائی جانے والی خواتین کے ساتھ بار بار بدکاری کی۔ حتیٰ کہ بڑھاپے میں بھی ہم یہ جرم کرتے رہے۔‘‘
’’ہم نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ مگر کتنے قاتلوں کو اپنے سیاسی تعصبات کی بنیاد پر ووٹ دیے۔ کتنے قاتلوں کو اپنے فرقہ وارانہ اور نظریاتی تعصبات کی بنیاد پر ہیرو اور شہید کہہ کر ان کی حمایت کرتے رہے۔ ہماری حمایت اور تحفظ کی بنا پر یہ قاتل مضبوط ہوئے۔ جس کے بعد روز قیامت قاتلوں کے ہر جرم کا ایک حصہ ہمارے نامہ اعمال میں بھی ڈال دیا جائے گا۔‘‘
’’ہم نے زمین پر فساد نہیں مچایا۔ مگر ہم نے کم تولا، زیادہ لیا۔ یہ فساد فی الارض ہے۔ ہم نے اپنی انانیت اور مفادات کی بنا پر ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیا جو حق کے علمبردار تھے۔ یہ فساد فی الارض ہے۔ ہم نے ہر سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے پھیلا کر دوسروں کی جان، مال، آبرو خطرے میں ڈالی۔ یہ فساد فی الارض ہے۔‘‘ عارف کے لہجے میں غضب تھا۔
سو ہمارے میزان میں ہر بڑے گناہ کی شکل نہ سہی روح ضرور ہوگی۔ اور روز قیامت وزن اعمال کی روح جاننے کے لیے ہی کیا جائے گا۔ اب جب آپ کو اپنے اعمال کا وزن معلوم ہوچکا ہے تو ضمیر کی میزان پر خود کو تول لیجیے۔ قبل اس کے کہ خدا اپنے میزان پر ہمیں تولے۔‘‘
عارف کی بات ختم ہوگئی مگر ہر اس شخص کو لرزا گئی جس کے سینے میں پتھر نہیں دل تھا۔