قرآن مجید میں روزہ کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں دی ہے، تم اس پر اللہ کی بڑائی کرو، (البقرہ 185:2)۔
کسی کو بڑا سمجھنے کے دو معروف طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ زبانی طور پر اس کی بڑائی بیان کی جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس کی بڑائی کی بنا پر اس کی بات مان لی جائے۔ چنانچہ ان دونوں طریقوں ہی سے روزوں کے ساتھ اللہ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے۔
زبانی طور پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کی شکل عید کی نماز میں پڑھی جانے والی اضافی تکبیرات ہیں۔ تاہم عملی طورپر روزہ رکھنا خود اللہ کی بڑائی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ روزے میں انسان اللہ کے حکم پر اپنی بنیادی ضروریات سے رک جاتا ہے۔ روزے کی حالت میں ایک مسلمان اپنے اوپر جن پابندیوں کو عائد کر لیتا ہے ان کا تصور بھی عام حالات میں نہیں کیا جاسکتا۔ کسی ہستی کے ایک اشارے پر کھانا چھوڑنا، پانی چھوڑنا، ازدواجی تعلقات سے رک جانا اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کے لیے وہ ہستی کتنی اہم اور کتنی بڑی ہے۔
چنانچہ ایک مومن جب روزہ رکھتا ہے تو وہ زبان حال سے اللہ تعالیٰ کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مالک تیرے حکم پر میں نے اپنی ساری ضروریات چھوڑ دیں۔ تیرا حکم تھا کھانا چھوڑ دو، چھوڑ دیا۔ تیرا حکم تھا پانی چھوڑ دو، چھوڑ دیا۔ تیرا حکم تھا جائز تعلق چھوڑ دو، وہ بھی چھوڑ دیا۔ پروردگار اس سے بڑھ کر تیری کبریائی میں اور کیسے بیان کروں۔ میں اور کس طرح اعلان کروں کہ میرے وجود پر تیرا ہی راج ہے اور میرے دل میں تیری ہی بڑائی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی بڑائی کی اس اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھا جائے تو پھر انسان کبھی خدا کا نافرمان نہیں ہوسکتا۔ پھر تقویٰ انسان کا راستہ اور جنت اس کی منزل بن جاتی ہے۔