حاصل قرآن ۔ ابویحییٰ
رمضان قرآن مجید کا مہینہ ہے۔ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا، تدبر کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنا اور اس کے ساتھ ذہنی اعتکاف کرنا اس ماہ کی بہترین عبادات ہیں۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت میں گفتگو کرنے کی ایک فکری اور قلبی واردات ہوتی ہے۔
قرآن مجید کو جب خالی الذہن ہو کر صرف اس کی بات سمجھنے کے لیے پڑھا جاتا ہے تو دو باتیں روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہیں۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ قرآن مجید کی مرکزی دعوت یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات، احساسات، محبت، عبادت، نصرت، اطاعت، حمیت اور حمایت کا اصل مرکز صرف اللہ تعالیٰ کو بنالے۔ قرآن صرف ایک خدا کی عبادت ہی کی بات نہیں کرتا بلکہ اسے فرد کی زندگی کا مرکزی خیال بنا دیتا ہے۔ یہی قرآن کی بنیادی دعوت ہے۔
قرآن مجید کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی دعوت کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہ اول تا آخر عقلی دلائل ہیں۔ جذباتی دلیل تو دور کی بات ہے، قرآن جذباتی اسلوب میں بھی کم ہی گفتگو کرتا ہے۔ جذباتی دلائل اگر قرآن نے نقل کیے ہیں تو وہ کفار کے ہیں۔ مثلاً کفار یہ کہتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ دادا اور بزرگوں کو اس دین شرک پر پایا ہے۔ یہ غلط کیسے ہوسکتا ہے۔ آباء و اجداد کی تقلید کی یہ دلیل اتنی وزنی ہے کہ کسی بھی عقلی بات کو اڑا کر رکھ سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سرتاسر ایک جذباتی دلیل ہے جس کی علم کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی جذباتی انداز فکر آج ہمارے ہاں مقبولیت کا معیار ہے۔
مخلوق کے بجائے ایک خالق کو محبت اور عبادت کا مرکز ہونا چاہیے، یہی قرآن مجید کی دعوت ہے۔ جذباتیت کے بجائے معقولیت کو حق و باطل کا معیار ہونا چاہیے، یہی قرآن مجید کا استدلال ہے۔ یہی اس فقیر کے زندگی بھر کے فہم قرآن کا خلاصہ ہے۔