اعتماد ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک صاحب نے اپنے دو واقعات سنائے۔ دونوں کا تعلق مالی معاملات سے تھا۔ وہ بتانے لگے کہ وہ کوئی بزنس ڈیل کر رہے تھے جس میں انھوں نے نوٹ کیا کہ سامنے والے بندے کا رویہ انتہائی پراعتماد تھا۔ اس اعتماد کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص کافی پیسے والا تھا اور کسی بھی معاملے میں پیسہ اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ چنانچہ اس کے پاس موجود دولت نے اسے یہ اعتماد دیا کہ وہ اس بزنس ڈیل کو ہر طرح کے خوف سے بالاتر ہوکر پورے اعتماد سے نمٹائے۔
دوسرا واقعہ انھوں نے اپنا سنایا کہ وہ ایک بینک میں کوئی آن لائن ٹرانزکشن کر رہے تھے جو کافی بڑی رقم کی تھی۔ ٹرانزکشن کرنے کے کچھ دنوں کے بعد انھوں نے اکاؤنٹ چیک کیا تو وہاں پیسے نظر نہیں آرہے تھے۔ مگر وہ معمولی سا بھی پریشان نہ ہوئے۔ کیونکہ انھیں اعتماد تھا کہ یہ بینک اربوں روپے میں کاروبار کرتا ہے اور بہت بڑا ادارہ ہے۔ چنانچہ ان کے اعتماد کے عین مطابق جب انھوں نے بینک والوں سے رابطہ کیا تو رقم ان کے اکاؤنٹ میں آگئی۔
میں نے یہ واقعات سنے تو احساس ہوا کہ بندہ مومن اعتماد کے کس مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کا بھروسا ساری دنیا کی دولت اور ساری مخلوقات کے مالک پر ہوتا ہے۔ جو سب کچھ جانتا اور ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔ وہ سراسر رحمت اور صاحب فضل و کرم ہے۔ ایسی ہستی پر جو شخص اعتماد کرکے زندگی گزارے گا، کیسے ممکن ہے کہ وہ ہستی بندے کو بے آسرا چھوڑ دے۔ بندے کو اسباب پورے کرنے چاہییں کیونکہ جو یہ نہیں کرتا وہ خدا کو آزماتا ہے۔ جبکہ یہ دنیا بندوں کو آزمانے کے لیے بنی ہے۔ مگر اس دنیا کی آزمائش کے کسی لمحے میں بندے کا یہ اعتماد مجروح نہیں ہوتا کہ اس کا مالک اسے کبھی بے آسرا و بے سہارا نہ چھوڑے گا۔ یہی اعتماد بندے کو مشکل ترین حالات میں بھی ایمان و اخلاق کی راہ سے ہٹنے نہیں دیتا۔