اعراف اور اصحاب اعراف ۔ ابویحییٰ
[یہ مضمون ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ میں مذکور اعراف اور اصحاب اعراف کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے۔]
عربی زبان میں اعراف کا استعمال بلند جگہ کی تعبیر کے لیے ہوتا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں سورہ اعراف کی تفسیر میں آیت نمبر 47 کے تحت بیان ہوا ہے:
’’قال ابن جرير: والأ عراف جمع عُرْف، وکل مرتفع من الأرض عند العرب يسمی عرفاً، وإنما قيل لعرف الديک عرفاً لارتفاعہ.۔۔۔ وفي روايۃ عن ابن عباس: الأعراف: تل بين الجنۃ والنار۔‘‘
یعنی ابن جریر کہتے ہیں کہ اعراف عرف کی جمع ہے۔ اہل عرب کے نزدیک زمین سے بلند ہر جگہ کو اعراف کا نام دیا جاتا ہے۔ مرغ کی کلغی کو بھی اس کے بلند ہونے کی وجہ سے عرف کہا جاتا ہے۔ جبکہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اعراف جنت اور جہنم کے بیچ کا ایک ٹیلہ ہے۔
قران مجید میں سورۃ الاعراف آیات 47 تا 49 اہل اعراف کا ذکر آیا ہے۔ اس میں ان کے جو مکالمات اہل جنت اور اہل جہنم سے نقل ہوئے ہیں وہ اس طرح ہیں: ’’اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ ابھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوئے ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے۔ اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کی جیو۔ اور اہل اعراف (کافر) لوگوں کو جنہیں ان کی صورتوں سے شناخت کرتے ہوں گے پکاریں گے اور کہیں گے (کہ آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کچھ کام آئی اور نہ تمہارا تکبّر (ہی سودمند ہوا) (پھر مومنوں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ اللہ اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا (تو مومنو) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ تمہیں کچھ خوف نہیں اور نہ تم کو کچھ رنج واندوہ ہوگا۔‘‘
یہ اہل اعراف کون ہیں اس کے بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال بیان ہوئے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کا رجحان اس رائے کی طرف ہے جس کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک و بد اعمال برابر تھے۔ یہ رائے چونکہ ایک مرفوع روایت میں بیان ہوگئی ہے شاید اسی لیے اس کی شہرت ہوگئی۔ تاہم خود ابن کثیر نے اسے غریب قرار دیا ہے جبکہ امام ناصرالدین البانی نے اسے منکر کہا ہے، (السلسلۃالضعیفہ، رقم6030)۔ محدثین کے اس تبصرے کے بعد اس کی حیثیت صرف ایک قول کی رہ جاتی ہے اور اسی حیثیت سے اسے دیکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے حوالے سے کئی اور تفاسیر بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد میں حصہ لیا۔ یہ موقف بھی بعض ضعیف روایات میں آیا ہے،(ضعیف الجامع، رقم884،البیھقی،1/290،السلسلۃالضعیفہ، رقم2791)۔ جبکہ ایک قول یہ ہے کہ فرشتے ہیں۔ آخری قول مجاہد تابعی کے حوالے سے یہ بیان ہوتا ہے کہ یہ علماء اور فقہا کا گروہ ہے۔ ان اقوال کی تفصیل علامہ ابن کثیر کی تفسیر القران الکریم میں دیکھی جاسکتی ہے۔
قرآن مجید کی اصحاب اعراف کے بارے میں واحد تصریح ان کے وہ مکالمات ہیں جو اوپر نقل کئے گئے ہیں یا پھر ان کا اعراف کی بلند چوٹیوں پر موجود ہونا۔ پہلے ان کے اس مقام کو لیجیے۔ بلند جگہ پر کسی شخص یا گروہ کو کھڑا کرنے کا ایک ہی مقصد سمجھ میں آتا ہے۔ وہ یہ کہ ان لوگوں کو نمایاں کرکے دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ کسی بلند مقام پر نیک و بد اعمال کے یکساں ہونے والے لوگوں کو کھڑا کرکے نمایاں کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں یہ مقام اگر انبیا اور صلحا کو عطا کیا جائے تو ان کی عزت افزائی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔
اس سے زیادہ صریح چیز ان کی گفتگو ہے۔ کافروں سے ان کے مکالمات پکار پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ الفاظ ایسے لوگوں کی زبان سے نہیں نکل سکتے جن کا ابھی جنت میں جانے کا فیصلہ نہ ہوا ہو۔ غور کیجیے کہ جس طرح یہ لوگ کفار کو لتاڑ رہے ہیں، یہ کام کوئی ایسا شخص کیسے کرسکتا ہے جس کے گناہ بھی زندگی میں اتنے ہی ہیں جتنی اس کی نیکیاں۔ جن کی نجات کا فیصلہ ہی ابھی نہ ہوا ہو۔ اس طرح بیچ میں لٹکنے والے لوگ روز حشر وہ ہمت اور اخلاقی برتری کہاں سے لاسکتے ہیں کہ کفار کو اس طرح شرمندہ کریں۔
غور کیجیے تو یہ الفاظ صرف انہی صلحاء کو زیب دیتے ہیں جن کی زندگی شہادت حق کے کام میں گزری، جن کی نجات کا فیصلہ ہوچکا ہو اور جن کی شہادت پر لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ یہی انبیا و صلحا اس قابل ہیں کہ ایسی گفتگو کرسکیں۔ صاحب تدبر قرآن نے بہت تفصیل کے ساتھ اس پورے معاملے پر اپنی تفسیر میں گفتگو کی ہے جسے آپ سورہ اعراف کے اس مقام کی تفسیر میں دیکھ سکتی ہیں۔ البتہ ایک سوال پھر بھی رہ جاتا ہے اور غالباً اسی وجہ سے اصحاب اعراف کے بارے میں یہ رائے قائم کی گئی کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو نیک و بد اعمال کے برابر ہونے کی بنا پر روک لیا گیا تھا۔ وہ یہ کہ ان آیات میں ان لوگوں کے لیے یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے لیکن اس کے امیدوار ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ انبیا و شہدا کے لیے یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ باقی لوگ جنت میں ہوں اور وہ ابھی جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ ان کو تو سب سے پہلے جنت میں ہونا چاہیے۔
میں نے اپنے ناول میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ کہ یہ مکالمات جو آیت نمبر 44 سے شروع ہو رہے ہیں جنت اور جہنم میں داخل ہونے کے بعد کے نہیں بلکہ میدان حشر کے ہیں۔ یعنی اس وقت کے جب روز حشر کا اختتام ہو رہا تھا اور تمام لوگوں کا فیصلہ سنایا جاچکا تھا۔ اس کے بعد لوگوں کے گروہ در گروہ جنت میں جانے کا مرحلہ شروع ہونا تھا۔ اس وقت جنت اور جہنم کو بالکل قریب کرکے لوگوں کو دکھایا جارہا تھا اور ہر شخص کو اپنا انجام اپنی آنکھوں سے سامنے نظر آرہا تھا، (وازلفت الجنۃ للمتقین غیر بعید)۔ یہ ساری تفصیل سورہ ق میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے الفاظ بھی یہ ہرگز نہیں کہ انہیں جنت میں داخلے سے روک دیا گیا بلکہ یہ ہیں کہ یہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے۔
یہی وہ آخری وقت ہوگا جب شہادت حق کا فریضہ سر انجام دینے والوں کی کامیابی کا باضابطہ اور رسمی اعلان کیا جائے گا۔ گرچہ وہ دیگر اہل جنت کے ساتھ پہلے ہی عرش کے سائے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں میں موجود ہوں گے۔ چنانچہ اس عاجز کی یہ تاویل پیش نظر رہے تو ’’لم یدخلوھا و ہم یطمعون‘‘ یعنی وہ جنت میں ابھی داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر اس کے امیدوار ہوں گے اور ’’ادخلوالجنۃ ‘‘یعنی جنت میں داخل ہوجاؤ جیسے الفاظ کا موقع محل بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
اس گناہگار نے اپنے ناول میں واقعات حشر بیان کرنے کی جو جسارت کی ہے اس میں خدمت کا پہلو یہی ہے کہ تمام واقعات جو قرآن حدیث میں بیان ہوئے ہیں ان کا موقع محل بھی واضح ہوجائے۔ میری بیان کردہ اضافی باتوں کو اگر اس پہلو سے دیکھیے تو یہ گویا قرآن و حدیث کی شرح ہے۔ اس میں سے جو بات صحیح ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے۔ کوئی بات اگر غلط ہے تو وہ میری اپنی کمزوری اور خطا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صحیح باتوں پر ہمارا ایمان راسخ کر دے اور ہر غلط بات کو دل و دماغ سے محو فرما دے۔ آمین۔