اچھی اور بری صحبت ۔ پروفیسر محمد عقیل
صحبت سے انسان بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی۔ مشہور مقولہ ہے کہ کوئلہ بیچنے والے کی صحبت کالک اور دھبے تحفے میں دیتی ہے جبکہ عطر فروش کی دوستی وجود کو معطر کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص چرسیوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ان جیسا ہی ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی نمازی لوگوں کی دوستی اختیار کر لے تو امید ہے کہ وہ بھی نماز کی جانب مائل ہو جائے گا۔
پہلے صحبت کا مطلب لوگوں سے بالمشافہ ملاقات سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج کل کے دور میں صحبت کے معنی بدل گئے ہیں۔ اب یہ میل جول ای میل، چیٹنگ، فیس بک، ٹوئیٹر، اسکائپ اور دیگر ٹولز کے ذریعے انٹرنیٹ پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح موبائل پر بات چیت، ایس ایم ایس، ایم ایم ایس اور دیگر ذرائع بھی صوتی ملاقات کے ذرائع ہیں۔
ان کے علاوہ ایک اور طرح کی صحبت ہے جو یکطرفہ کہلائی جاسکتی ہے۔ اس میں ٹی وی پروگرامز، ایف ایم ریڈیو، ڈی وی ڈی موویز، انٹرنیٹ کی ویب سائیٹس، بلاگز، اخبارات و رسائل وغیرہ شامل ہیں۔ آج لوگ ان کی صحبت میں اپنے وقت کا بڑا حصہ صرف کرتے ہیں۔
صحبت خواہ وہ بالمشافہ ہو یا کسی اور ذریعے سے، ہر صورت میں اس کا اثر شخصیت پر پڑتا ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کی صحبت میں رہنے والے کا رویہ ایک جارحانہ اور جنسی پژمردگی پر مبنی ہو گا۔ دوسری جانب قرآن کا ترجمہ و تفسیر سننے والا شخص خدا کی بندگی کے زیادہ قریب ہو گا۔ صحبت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے اسے براہ راست موضوع بنایا اور ہدایت کی کہ راست باز، نیک اور صالح صحبت اختیار کی جائے۔ جیسا کہ اس آیت میں بیا ن ہوتا ہے:
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راستبازوں کے ساتھ رہو۔(التوبہ 119:9)
دوسری جانب جو لوگ خود کو بری صحبت سے نہیں بچا پاتے اس کا بھی ایک تمثیلی نقشہ قرآن نے کچھ اس طرح کھینچا ہے:
(جنت میں) یہ لوگ بھی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔ ان میں سے ایک (جنتی) کہے گا:
"(دنیا میں) میرا ایک ہم نشین تھا۔ جو مجھے کہا کرتا تھا: ’’کیا تم بھی ایمان لانے والوں میں شامل ہوگئے ہو؟ بھلا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہمیں سزا و جزا بھگتنا پڑے گی؟‘‘
پھر وہ (جنتی دوسرے جنتی سے) کہے گا: ’’کیا تم اس (ورغلانے والے) کا حال معلوم کرنا چاہتے ہو؟‘‘ پھر جب وہ (جنتی اس کا حال معلوم کرنے کے لئے جہنم میں) جھانکے گا تو اسے جہنم کے عین درمیان دیکھے گا۔
پھر(وہ جنتی) کہہ اٹھے گا:۔ ’’اللہ کی قسم! تم مجھے ہلاک کر کے ہی چھوڑتے۔ اور اگر مجھ پر میرے اللہ کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی (مجرموں کی طرح جہنم میں) حاضر کئے ہوئے لوگوں میں شامل ہوتا‘‘۔(الصافات: آیات 50-57)
ان آیات میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا کہ بری صحبت کا انجام جہنم کا گڑھا بھی ہوسکتا ہے۔ اچھی اور بری صحبت کے فرق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت اچھی مثال سے سمجھایا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہاروں کی بھٹی تو مشک والے کے پاس سے تم بغیر فائدے کے واپس نہ ہو گے یا تو اسے خریدو گے یا اس کی خوشبو پاؤ گے اور لوہار کی بھٹی تیرے جسم کو یا تو تمہارے کپڑے کو جلا دے گی یا تم اس کی بدبو سونگھو گے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2021)
چنانچہ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس قسم کی صحبت میں اپنا وقت گذارتے ہیں۔ اگر یہ وقت ٹی وی کے بے اخلاق پروگرامز، دنیا پرستی پر مبنی فلمیں، عریاں ویب سائیٹس، گندے لطیفوں پر مبنی ایس ایم ایس، تحقیر آمیز مذاق پر مبنی ای میلز، فیس بک کی لایعنی پوسٹس اور دنیا پرستی کی ہوا دینے والے رسالوں کے ساتھ گذرتا ہے تو اس بری صحبت کا نتیجہ آلودہ شخصیت کا حصول ہے۔ دوسری جانب اگر ہمارے ساتھی قرآن کی تفسیر و تلاوت، پاکیزہ ای میلز، ستھرے ایس ایم ایس، ایمان افروز پوسٹس، ایمان سنوارنے والے پروگرامز اور نفس کی تربیت کرنے والی محفلیں ہیں تو اس اچھی صحبت کا آوٹ پٹ ایک پاکیزہ شخصیت ہے۔ ناپاک شخصیات کا ٹھکانہ جہنم کی آگ اور پاکیزہ نفوس کا مقام جنت کے باغات ہیں۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔