ابدی خوشی ۔ ابویحییٰ
میں اور وہاج ٹہلتے ہوئے اپنے گھر والوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے سامنے تاحد نظر پھیلا ہوا سمندر تھا۔ وہاج نے پوچھا کہ کیا جنت کی نعمتوں کی بھی کوئی حد نہ ہوگی ۔شاید سمندر کی وسعت نے اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا۔ ’’کیا ہم وہاں بور نہیں ہوجائیں گے؟‘‘
میں نے لمحے بھر کے لیے توقف کیا اور اس سے دریافت کیا۔ یہ بتاؤ کہ انسان کتنے عرصے سے قصے کہانیاں سنا رہے ہیں۔ کیا وہ کبھی ان سے بور ہوئے؟ ان قصے کہانیوں نے افسانوں، ناولوں، اور اب ڈراموں نے فلموں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کیا لوگ اِن سے بور ہوگئے ہیں؟ انسان کتنے عرصے سے گا رہا ہے۔ سننے والے سنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر روز ایک نئی دھن، ایک نیا گیت تخلیق ہوتا ہے۔ مگر انسان کبھی بور نہیں ہوتا۔ وہ نئی نئی تخلیقات کا منتظر رہتا ہے۔ یہی جنت میں ہوگا۔
یہ واقعہ پرانا ہوگیا۔ مگر کل میں قرآن پڑھتے ہوئے اس مقام پر پہنچا جہاں اس میں جنت کا پہلا تذکرہ ہے تو مجھے قرآن سے اپنی بات کی تائید مل گئی۔ جنت کے اس تذکرے میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ جب جب اہل جنت کو کوئی پھل بطور رزق ملے گا وہ کہیں گے کہ یہ تو ہمیں پہلے بھی دیا گیا ہے۔ مگر قرآن یہ تبصرہ کرتا ہے کہ انہیں بظاہر یہ پھل پچھلے پھلوں سے ملتا جلتا لگے گا لیکن حقیقت میں یہ ایک بالکل مختلف پھل ہوگا۔ نعمت کا یہی تنوع جنت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خوشگوار مقام بنا دے گا۔
انسان کبھی یکسانیت کو پسند نہیں کرتا۔ انسان نعمتوں کی خواہش کرتا ہے۔ مگر جیسے ہی یہ نعمت اس کی دسترس میں آتی ہے تو کچھ وقتی لذت کے بعد انسان بوریت کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ایک نئی شے کی جستجو میں مشغول ہوجاتا ہے۔ مگر اس دنیا میں طاقت، صحت، دولت، وقت اور زندگی کی محدودیت قدم قدم پر انسان کے آڑے آجاتی ہے۔ جنت ہی وہ مقام ہے جہاں کوئی محدودیت نہ ہوگی۔ اور اس سے بڑھ کر خدا اپنی ساری خلاقی کا مظاہرہ کر کے ہر روز اور ہر ساعت انسان کو ایک نئی نعمت اور لذت سے روشناس کرائے گا۔ یہی جنت کی ابدی خوشی کا راز ہے۔