آپ کا شکریہ ۔ ابویحییٰ
اس کرہ ارض پر انسان خدا کی سب سے شاندار تخلیق ہے۔ انسان کی فضیلت کے ہزارہا پہلو ہیں لیکن سب سے بڑا پہلو انسان کی تخلیقی صلاحیت ہے جس کا نقطہ عروج انسان کی قوت بیان ہے۔ انسان اپنی زبان و قلم سے احساسات، مشاہدات اور تاثرات کو جس خوبی و کمال کے ساتھ ادا کرتا ہے وہ بلاشبہ جان تخلیق ہے۔ مگر اس صلاحیت و استعداد کے ساتھ انسان کو اس دنیا میں ہزار طرح کے عجز لاحق ہیں۔ مگر ان میں سب سے بڑا عجز یہ ہے کہ انسان غیر معمولی قوت بیان رکھنے کے باوجود اپنے مالک کی حمد کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہے۔
کلام، نظم، نثر، خطبہ، مضمون یا اور کسی شکل میں ہو اپنے جمال و ابلاغ کے لیے بہرحال اسالیب زبان کا محتاج ہوتا ہے۔ مگر خدا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی بڑائی اور اس کی ثنا ہر اسلوب سے بالاتر ہے۔ خدا کی حمد کس تشبیہ سے بیان ہو، اس جیسا کوئی نہیں۔ خدا کی تعریف کس استعارے میں سمائے، اس کا سا جمال کسی میں نہیں۔ خدا کی تمثیل کس کے روپ سے دی جائے، مالک دو جہاں تو بے مثل ہے۔ اس کا تقابل کس سے کیا جائے، اس کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ اس کا ذکر کیسے ہو، وہ ہر جگہ مذکور ہے۔ اس کو حذف کیسے کیا جائے، وہ ہر ظاہر کا باطن ہے۔ وہ کمال کی جس عظمت پر ہے وہاں اطناب و تفصیل کی کوئی راہ جاتی ہے نہ ایجاز و اختصار کا کوئی شارٹ کٹ پہنچتا ہے۔ وہ جمال کے جس مقام پر ہے وہ حقیقت سے بیان ہوسکتا ہے نہ کسی مجاز سے۔
ایسے میں انسان کا واحد سہارا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں جو خدا کے سب سے بڑے عارف تھے۔ اللھم لانحصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔ یہ حقیقت خدا کے آخری نبی ہی بتا سکتے تھے کہ خدا کی تعریف اور ثنا کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے خود کو سراہا ہے۔ یا رسول اللہ آپ کا شکریہ۔