آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر ۔ ابویحیی
[اپنی پیدائش کے دن مبارکباد دینے والے متعلقین اور دوستوں کو لکھا گیا ایک مضمون: ابویحیی]
کتاب زندگی کا ایک اور ورق تمام ہوا۔۔۔ ہجر کی ایک اور رُت بیت گئی۔
یہ زندگی کیا ہے؟ اپنے مالک کے حکم پر اس سے دور رہ کر جینا ہے۔ اس کے قدموں کی مہک۔۔۔ اس کے تلووں کے لمس کو چھوڑ کر بستی ہجر کو اذن رب پر آباد کرنا ہے۔
آہ کہ ہم غافل اس حقیقت کو بھول کر اِسی دنیا کو اپنا گھر سمجھنے لگتے ہیں۔ کوئی ہم نادانوں کو سمجھائے کہ سرائے کو گھر سمجھنے والوں کو ایک دن رخصت کا پروانہ تو ملتا ہے، مگر متاع حیات سمیٹنے کا موقع نہیں ملتا۔ ان بدنصیبوں کی کُل کمائی سرائے فانی میں رہ جاتی ہے۔۔۔ اس بستی ہجر میں اذنِ سفر یکدم ہی ملا کرتا ہے۔ سو جو سامان باندھے بیٹھا ہے، وہ تو زاد سفر لے لے گا۔۔۔ اور جو غافل رہا، جاہل رہا، کاہل رہا۔۔۔ اس کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ یہ جہاں نہ وہ جہاں۔
پروردگار کے حکم پر اِس دنیائے دوں کے شعلہ بار دنوں میں جلنا اور بستی ہجر کی یخ بستہ راتوں میں بجھتے اور سلگتے رہنا ایک عجیب داستان ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ رحمن نے انسان کو کیوں بنایا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ نہ بناتا تو یہ داستانِ ہجر اعلی مرتبت سردار جبریل لکھ پاتے نہ عالم آب و گِل کے چلتے، اڑتے، تیرتے مکیں صفحہ ہستی پر تحریر کر پاتے۔ اگر دل میں احساس خلیل اللہ ابراہیم کی طرح زندہ ہو تو تنہا یہی شرف، زندگی کی ہر آگ کو گل و گلزار بنانے کے لیے بہت ہے۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ رحمن اس قرض کو اس طرح اتارے گا کہ ابراہیم اور آل ابراہیم کو ابدی طور پر بادشاہی کی خلعت فاخرہ عطا کر دے گا۔ اور دل میں احساس نہیں تو یہی دنیا بہت جہنم ہے۔ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذَلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۔
خسارہ پانے والوں کو چھوڑیے جو ہماری نگاہ میں بہت اور البصیر و الخبیر کی نگاہ میں بہت کم ہیں۔ اس عالم فانی کو گھر کے بجائے بستی ہجر سمجھنے والوں کی طرف آئیے جو بہت کم ہوکر بھی سب کچھ ہیں۔ یہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو فراق کی آگ میں جلتے، بجھتے اور سلگتے رہتے ہیں۔ ان کی حیات پرسوز کو پروین سلطانہ حنا ؔ نے کمال سادگی کے ساتھ یوں بیان کیا ہے۔
دن۔۔۔ مہینہ سال میں ڈھلتا رہا
وقت کا پہیہ یونہی چلتا رہا
تجھ کو کیا معلوم تیرے ہجر میں
اک دیا جلتا رہا بجھتا رہا
ان کا مقصود اس دل کو پانا ہوتا ہے جو اپنی ہستی قربان کرکے بھی مل جائے تو نقصان کا سودا نہیں۔
جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانا دل
دوسرے وہ ہیں جن کا ذوق شاعر مشرق کی طرح ہوتا ہے جو محبوب حقیقی سے بے تکلفی کا مکالمہ کرنے کی جرات رکھتے تھے:
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
یہ صاحبان جنوں وہ ہیں جو دنیائے آب گل میں خالق آب و گِل کی مرضی کے پھول کھلانا چاہتے ہیں۔ انہیں وصال یار سے زیادہ، خیال سے زیادہ۔۔۔ گیسوئے یار سلجھانے کی فکر ہوتی ہے۔ مگر یہ کام لمبا ہے۔ سو انہیں وصال کی جلدی نہیں۔ سلگتے وہ بھی ہیں، مگر اقبال کی طرح یار کو انتظار کا مشورہ دے کر اپنے اندر کی آگ سے پتھروں کو جونک لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں آقائے دو جہاں کو انذار عام کا حکم دیا گیا تھا۔
یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔قُمْ فَأَنذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّر۔وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ وَلَا تَمْنُن تَسْتَکْثِرُ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔
اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے، اٹھو اور انذارِ عام کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اپنے رب ہی کی کبریائی کا اعلان کرو، اپنے دامن دل کو پاک رکھو،(اردگرد پھیلی) غلاظت سے دور رہو اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کرکے منقطع نہ کر بیٹھو اپنے رب کے فیصلے انتظار میں ثابت قدم رہو۔
اِس حکم سے قبل آقائے دو جہاں حبِ الہی کے سوز میں ڈوب کر سیرت و شخصیت کی آخری عظمتوں کو تخلیق کرتے اور اپنے قریبی لوگوں کو مالک دو جہاں کے قدموں میں لا کر ڈالتے رہے۔ انذارِ عام کا حکم آیا تو حبِ الہی کا یہ شعلہ بھڑکا اور عرب کا کوئی کچا پکا گھر نہ بچا جو نور الہی سے روشن نہ ہوگیا۔ پھر عالم عجم پر رحمتوں کا یہ بادل برسا اور ہر بنجر زمین کو سیراب کر گیا۔ سلام ہو محمد اور آل محمد پر جس طرح سلام ہوا ابراہیم اور آل ابراہیم پر۔
اب وقت آگیا ہے کہ کُل عالم نورِ نبوت سے روشن ہوجائے۔ امت کا آخری حصہ اٹھے اور پوری انسانیت پر اسی طرح برسے جس طرح پہلا حصہ عالم عجم پر برسا تھا۔ گو صاف نظر آتا ہے کہ پہلے والوں میں سے یہ بہت تھے اور پچھلے والوں میں سے بہت کم ہوں گے۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْأَوَّلِیْنَ۔ وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْآخِرِیْنَ۔
میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے اپنے طریقوں سے یہ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ مگر جب میں ان کو اور پھر سرکار دوعالم کو ملنے والے حکم کو دیکھتا ہوں تو طبیعت پراگندہ ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ قُمْ فَأَنذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ کو اپنے سفر کی منزل سمجھ بیٹھے ہیں۔ نادان یہ نہیں جانتے کہ یہ کام تو اللہ کراتا ہے۔ بندے کی اپنی نجات آگے بیان کردہ کاموں میں ہے۔ یہاں کسی کو یہ بھی نہیں خبر کہ آگے کیا کہا گیا ہے: وَثِیَابَکَ فَطَہِّر۔وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ وَلَا تَمْنُن تَسْتَکْثِرُ۔وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔
شخصیت میں ہر آلودگی، اخلاق میں ہر پستی، ہمت میں بے حوصلگی اور طبیعت میں بے صبری کے ساتھ خدا کی مرضی نہ پہلے کبھی بیان ہوسکی ہے نہ آج ان لوگوں سے یہ خدمت لی جائے گی۔ خدا کی کبریائی ایسے لوگ نہ پہلے قائم کرسکے نہ آج کرسکیں گے۔
یہ سب لکھ کر خیال آتا ہے کہ میں ان سب سے کیسے مختلف ہوں۔۔۔
عجب سانحہ ہے کہ انسان کے حق میں سب سے معتبر گواہی اس کی اپنی ہوتی ہے اور وہی گواہی۔۔۔ اس معاملے میں سب سے بڑھ کر مردود ہوتی ہے۔ ہاں مگر صاحبان بصیرت کہتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک استاد، ایک داعی کس طرح کے لوگ پیدا کررہا ہے۔۔۔ وہی اس کی جدوجہد کے حق و باطل کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی اپنی قوم پر سچی تھی اسی لیے وہ اصحاب پیدا ہوئے جن کی گواہی کل عالم کے لیے معتبر ٹھہری۔
سو میرے دوستو! مجھے مبارکباد اس وقت دیجیے جب آپ کے اندر خدا کی مرضی عام کرنے اور اس کی کبریائی بیان کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ آپ اپنے دامنِ دل۔۔۔ اپنی شخصیت کو پاکیزہ سے پاکیزہ تر بناتے جائیں۔ ایمان اور اخلاق کی ان نجاستوں سے آپ خود کو بچا رہے ہوں جو ایک سیلاب بلا کی صورت ہر گھر کے درپے ہیں۔ دین کے لیے اپنی کسی سعی کو آپ آخری جان کر بیٹھنے والے نہ ہوں اور ہر بہتان تراش، جھوٹے اور دغاباز کی باتوں پر صبر کرنے والے نہ بن جائیں۔
آپ اس راستے پر پہلا قدم رکھ دیجیے۔ پھر مجھے مبارک باد دیجیے۔ ورنہ روز قیامت میری اور آپ کی رسوائی کا منظر ایک سا ہوگا۔ اقبال نے یہ کہا تو کسی اور پس منظر میں تھا۔ مگر اس پہلو سے بھی یہ شعر نقل کرنا غلط نہیں۔
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر