آخری گرہ ۔ فرح رضوان
یونیورسٹی میں تو داخلہ مل گیا تھا لیکن ہاسٹل میں جگہ نہ مل پائی۔ ناچار ایک نزدیک گھر میں شیئرنگ میں رہنا پڑا۔ قسمت نے ساتھ دیا، روم میٹس اور لینڈ لیڈی سے اچھی بننے لگی، وہاں پرابلم کوئی نہ تھی لیکن دل پر شدید بوجھ رہتا- ہر وقت ایک ناخوشگوار سی کیفیت سے دوچار رہتی، وجہ؟
وجہ تو ہماری لینڈ لیڈی محترمہ ہی تھیں— وہ ایک درمیانی عمر کی ملنسار عورت تھی لیکن—-
اس کی ایک عادت کی بنا پر میرا یہ احساس بڑھتا ہی جا رہا تھا— اور جب گھٹن مزید بڑھی تو سوچا کہ اب اس معاملے پر براہ راست بات کرنی چاہیے، سو ایک فرصت کے دن پوچھ ہی ڈالا کہ، آپ رات تک مصروف رہتی ہیں لیکن ہم ابھی سونے جا رہے ہوتے ہیں کہ پتا چلتا ہے آپ اٹھ بیٹھی ہیں، ہم تو کتنے ہی طرح کے الارم لگا لیں عہد کر لیں لیکن کسی طور فجر پر نہیں اٹھ پاتے اور سارا دن خود پر شرمندہ ہوتے گذر جاتا ہے- یاد نہیں کہ اس بات پر ان کی ہچکچاہٹ سے بھر پور مسکراہٹ زیادہ طویل تھی یا سرد آہ، لیکن پھر بڑی شفقت سے میرا ہاتھ تھام کر بولیں کہ ظالم لڑکی یہ کیا یاد دلا دیا تم نے، اب پوچھا ہے تو سنو!
’’کئی سال پہلے میں بھی اسی دور سے گزر چکی ہوں جس سے آج تم گزر رہی ہو، میں بھی کسی صورت فجر پر نہ اٹھ پاتی تھی، دس بہانے ذہن میں آتے کہ رات میں بیمار بچے کی وجہ سے جاگنا پڑا مہمان دیر سے گئے بہن کو فون پر سسرال میں گذارہ کرنے کی نصیحتوں میں وقت لگ گیا یہ سب بھی تو کتنے ثواب کے کام ہیں، لیکن یہ بہلاوے، سورج نکلنے تک کے ہوتے، مر مر کر دن چڑھے آنکھ کھلتی تو ضمیر جینے نہ دیتا، وہ ملامت اور دھتکار کہ کیا بتاؤں، بہرحال خوب توبہ کرتی منہ دھونے کے ساتھ ہی وضو کر کے ناشتے سے پہلے قضا نماز پڑھتی اور گڑگڑا کر دعا کرتی کہ اللہ پاک فجر کے وقت اٹھنے کے لیئے آسانی فرما دے، سو پھر یوں ہونے لگا کہ میں نے سوچنا شروع کیا کہ شیطان انسان کو تین گرہ لگاتا ہے، جس میں سے ایک تو اٹھتے ساتھ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو کھل جاتی ہے، وہ الحمد للہ میں کرتی ہوں، دوسری جب وضو کرے تب کھل جاتی ہے اور وہ بھی میں کرتی ہوں، بس یہ منحوس آخری گرہ جو تہجد کے نفل یا فجر کی بر وقت نماز سے کھلتی ہے وہی نہیں کھل پاتی اور سارا دن میرا ایک گنجلک سا ہو کر رہ جاتا ہے، بس اب ہر صورت اس آخری گرہ کو کھولنا ہی ہے، اس چلینج کے بعد میں نے فجر پر پورا زور لگا کر اٹھنا شروع کر دیا، اور یہ ہوا اس طرح کہ میں نے فجر کے آخری وقت کا الارم لگانا شروع کر دیا۔ اب الارم بند کر کے واپس سونے کا چانس ہی نہ ہوتا کہ وقت تنگ ہے بھاگو۔ یوں نیند میں جھولتی نفس سے الجھتی وضو کرتے خود کو یہی بہلاوا دیتی کہ بس یہی دس منٹ کی بات ہے پھر سونا ہی ہے، تو میری فجر آخر وقت ہی سہی ملنے لگی، کم از کم یوں دن کے بدترین آغاز سے جان خلاصی ہو گئی تھی لیکن! آخر وقت پر سر سے بوجھ اتارنے والی بات سے میں زیادہ مطمئن نہیں تھی۔ اصل میں میرے حالات بہت خراب چل رہے تھے، مر جاؤ لیکن نہ عزت نہ پذیرائی، حالات ایسے تھے کہ سارے تو کسی کو بتائے بھی نہیں جا سکتے تھے اور کسی کو سرسری سے بتاؤ تو ان کا ہر وظیفہ فجر کی نماز میں ہی ہوتا کہ بیٹا یہ ورد کرو یہ سورہ پڑھو، مگر یہ میرے لیے ممکن نہ تھا۔ پھر اللہ کے کرم سے میری نظر سے سورۂ اسراء کی یہ آیات گزریں کہ(اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے 78)اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کر دے 79)
اور میرا سارا فوکس پھر اسی پر ہو گیا کہ اسی میں میری نجات اور سارے مسائل کا حل ہے پر سب سے بڑا مسلہ تو میری نیند تھی، بہت دعا بہت کوشش کی پر لگا کہ کوئی فائدہ نہیں۔ پھر ایک دن بچوں کی ڈھیروں کتابیں سنبھالتے ہوئے خیال آیا کہ ہر سال شروع میں لگتا ہے کہ اتنی کتابیں اتنے چھوٹے بچے کیسے پڑھ پائیں گے لیکن دیکھا جائے تو تمام چھٹیوں کو نکال کر کل آٹھ ماہ بنتے ہیں اور شیڈول کے مطابق چلتے رہنے کے بعد تمام سبق بچوں کو یاد بھی ہو جاتے ہیں سمجھ بھی آجاتے ہیں، تو یوں میں نے خود کوبہت سمجھایا کہ فجر میں قرآن پڑھنے کا مطلب کہ یا تو نماز میں پڑھوں جو کہ اس وقت ممکن نہ تھا کہ تب مجھے گنتی کی اور بہت چھوٹی سورتیں یاد تھیں، تب میں نے پکا ارادہ کیا کہ، نماز فجر کے بعد صرف ایک لائن قرآن سے بھی پڑھا کروں گی، اور اس وقت وہ صرف ایک لائن پڑھنا میرے لیے سب سے دشوار ہوا کرتا لیکن الحمد للہ میں ثابت قدم رہی اور میرا نفس اس مشقت کا عادی ہو گیا تب میں نے دو سے تین اور پھر چار لائن پڑھنی شروع کیں۔ جب رمضان آیا تو ایک نئی چیز آشکار ہوئی کہ صرف تیس دن میں سورج کے طلوع اور غروب میں بہت نمایاں فرق آجاتا ہے، لیکن اندازہ نہیں ہو پاتا اور اسی طرح تو منٹ منٹ کر کے سردیوں کی لمبی راتیں، اور گرمیوں کے طویل دن وجود میں آتے ہیں، سو یہاں سے میں نے دو دو منٹ کر کے اپنے فجر پر اٹھنے کا وقفہ بڑھانا شروع کیا، میرا مقصد اب صرف فجر پر اٹھنا نہیں رہ گیا تھا بلکہ منزل اب تہجد کا خاص وقت تھا جس تک پہنچنے میں سورہ سجدہ کی اس آیت سے بہت مدد ملی کہ(اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں) اور الحمد للہ اس آخری گرہ کے کھلتے ہی زندگی کی ہر گرہ کھلتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔