آج کے بے ایمان ۔ ابویحییٰ
حضرت شعیب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اہل مدین کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اہل مدین کوئی اور نہیں حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان میں طرح طرح کی برائیاں پیدا ہوگئیں تھیں۔ اس دور کی دیگر اقوام کی طرح یہ لوگ بھی شرک کا شکار تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ آخرکار اس قوم پر زلزلہ کا عذاب آیا اور پوری قوم تباہ کر دی گئی۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے شرک کے علاوہ ان کے ایک اور مرض کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ لوگ ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تھے۔ قرآن میں ہے کہ جب حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں اس حوالے سے سمجھایا تو انہوں طنزیہ جواب دیا کہ اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کرسکیں۔ بس تم ہی ایک دانشمند اوراستباز رہ گئے ہو؟
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ منافع کمانے کے ناجائز طریقے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا بڑا جرم ہے۔ اس عمل میں چونکہ انسان جان بوجھ کر دوسرے انسانوں کو دھوکہ دیتا ہے اس لیے اس کا دل سخت ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ وقت کے پیغمبر کا مذاق اڑانے پر اتر آتا ہے۔اسی طرح یہ بات بھی اس واقعہ سے سامنے آتی ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والا اور نماز پڑھنے والا انسان کبھی اس طرح کے بھیانک اخلاقی جرائم کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ یہ اتنی واضح بات ہے کہ قوم شعیب کے کفار بھی اسے سمجھتے تھے۔
بدقسمتی سے آج ہماری مسلمان سوسائٹی میں لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ ہمارے ہاں طرح طرح سے ناجائز طریقے سے منافع کمایا جاتا ہے۔ جن میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، جھوٹ بول کر مال بیچنا، ذخیرہ اندوزی وغیرہ بہت عام ہیں۔ یہ کام کرنے والے لوگ حکومت کے دھوکے، جھوٹ اور رشوت کے ذریعے سے دنیا کے قانون کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں۔ مگر قومِ شعیب کا سبق یہ بتاتا ہے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ جس خدا نے قوم شعیب کے بے ایمان لوگوں پر عذاب نازل کیا تھا، آج کے مسلمان بھی اس کی پکڑ سے ہرگز باہر نہیں ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ قومِ شعیب کے مجرمین کو گزرے ہوئے کل میں پکڑا تھا۔ اور آج کے بے ایمان مجرموں کو وہ آنے والے کل میں پکڑے گا۔