دعا اور عزم ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک قاری نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ میرے مضامین بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ وہ ان مضامین کو پڑھ کر ہمیشہ بہت متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اثر وقتی ہوتا ہے اور کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ اپنے معمولات کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
یہ کم و بیش ہر انسان کا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماحول اور حالات کا بہت گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ جس وقت انسان ایک تذکیری اور اصلاحی مضمون پڑھتا ہے، کسی اچھی اور نیک صحبت میں بیٹھتا ہے، کوئی دلپذیر بات یا اچھی نصیحت سنتا ہے تو اس کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے۔لیکن جیسے ہی ماحول بدلتا ہے، صحبت تبدیل ہوتی ہے، مصروفیات کی نوعیت بدلتی ہے انسان نیکی کی بات بھول کر انہی چیزوں میں مگن ہوجاتا ہے۔ اسے یاد بھی نہیں رہتا کہ کچھ دیر پہلے اس نے کس قسم کی بات سنی یا پڑھی تھی۔
اس مسئلے کا سب سے اچھا علاج یہ ہے کہ جیسے ہی انسان کوئی اچھی بات سنے یا پڑھے جس پر اس کی فطرت لبیک کہے اور قلب متوجہ ہو تو وہ اس کیفیت کو ارادے کی قبا اور دعا کی غذا سے تحفظ اور توانائی فراہم کرے۔ وہ عزم کرے کہ جس نیکی کی تلقین کی گئی ہے وہ اسے زندگی بنائے گا، جس برائی کا ذکر ہے وہ اس سے دور رہے گا۔ وہ سابقہ زندگی پر توبہ کرے اور آئندہ کے لیے اپنے پروردگار سے استقامت کی درخواست کرے۔
عزم و دعا کی یہ دو طرفہ ڈھال انسان میں آنے والی لمحاتی تبدیلی کو زندگی بھر کا معمول بنا دے گی۔ توجہ کے ساتھ کی جانے والی دعا ختم نہ ہونے والی رحمت الٰہی کے نزول کا سبب بن جائے گی۔ ایک لمحہ میں کیا جانے والا عزم نفس و شیطان کی یلغار کو دیر تک پیچھے دھکیل دے گا۔ دعا اور عزم جس شخص کا معمول بن جائے، آہستہ آہستہ اس میں مکمل تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب انسان کسی بھی ماحول میں بیٹھا ہو وہ خالق کی بندگی اور نیکی کے احساس میں جیتا ہے۔