ایک مرد باعمل ۔ ابویحییٰ
یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ کسی شاعر نے اس مضمون کو کتنی خوبی سے باندھا ہے:
کسی کا کندا نگینے پہ نام ہوتا ہے کسی کی عمر کا لبریز جام ہوتا ہے
عجب سراہے یہ دنیا جہاں پہ صبح ومساء کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے
ہم عام طور پر اس حقیقت کو بھولے رہتے ہیں۔ مگر جب کبھی کسی قریبی شخص کی اچانک وفات کا سانحہ پیش آتا ہے تو یہ احساس تازہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے ناگہانی واقعات ہمیں جھنجھوڑ کر یہ بتاتے ہیں کہ یہ دنیا رہنے بسنے کا مقام نہیں، بس ایک سرائے ہے جہاں ازل کا مسافر ابد کی منزل کو جاتے ہوئے کچھ دن کے لیے ٹھہر گیا ہے۔ مگر آہ کہ ہر مسافر اس سرائے میں ایسے مگن ہوجاتا ہے کہ گویا اسے کبھی مرنا نہیں ہے۔ پھر ایک روز موت کا فرشتہ اپنا ہاتھ بڑھا کر کہتا ہے کہ عمل کی مہلت ختم ہوئی۔ آؤ اور میرے ساتھ انجام کی منزل کی طرف چل پڑو۔
ہمارے عزیز دوست ذوالفقار علی چوہان کی اچانک موت نے بھی اس احساس کو پوری طرح زندہ کر دیا ہے کہ مہلت عمل کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے۔ انسان کو ہر رات کو آخری رات اور ہر دن کو آخری دن سمجھ کر اگلی دنیا کی تیاری کرتے ہوئے جینا چاہیے۔ ربع صدی کے عرصے تک پھیلے ہوئے تعلق میں اس طالب علم نے چوہان صاحب کو ایسا ہی انسان پایا۔
ایک ایسے دور میں جب مروجہ مذہبی فکر لوگوں کا اخلاق و کردار بدلنے کے بجائے ان کے ظاہر کو تبدیلی کی علامت بنا رہی ہے۔ خدا سے محبت اور اس کا خوف پیدا کرنے کے بجائے فرقہ واریت، تعصب ،نفرت اور انتہا پسندی کا صور پھونک رہی ہے۔ اس دور میں اور اسی فکر میں پروان چڑھنے کے باوجود چوہان صاحب کی فطری پاکیزگی نے انھیں بالکل برعکس صفات کا حامل بنا دیا تھا۔ سادہ، مخلص، خدا کا خوف رکھنے والے، ہمدرد، خیر خواہ، نصرت دین کے لیے ہمہ وقت تیار، داعیانہ تڑپ کے حامل اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے۔
ربع صدی کے اس تعلق میں مجھے بار بار ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا سامنا ہوا۔ ہمارا ابتدائی تعارف اس وقت ہوا جب ہم اپنے اپنے پس منظر میں حق کے متلاشی بن کر مختلف اہل علم سے استفادہ کر رہے تھے۔ اپنے تعصبات سے اوپر اٹھ جانے کے بعد ہمارا سفر ایک ہی جیسے نتائج فکر پر ختم ہوا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کے اِس طالب نے ایمان و اخلاق کے حق کی دریافت کے بعد اس کے ابلاغ کو کل وقتی طور پر اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنا لیا۔ جبکہ چوہان صاحب نے جزوقتی طور پر اس مشن کو اپنی زندگی بنائے رکھا۔
ان کی فطرت صالحہ ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت سے کس درجہ ہم آہنگ تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سن 2009 میں جب احباب کے اصرار پر میں نے زندگی کا واحد دورہ ترجمہ قرآن کرایا تو عید کے دن چوہان صاحب نے مجھے فون کر کے کہا کہ میں نے پچھلے بائیس سال میں ہر برس دورہ ترجمہ قرآن کے پروگرام اٹینڈ کیے اور ہر سطح کے عالم سے قرآن سنا ہے۔ لیکن قرآن جیسا اب سمجھا، پہلے کبھی نہیں سمجھا تھا۔ اس کا سبب اِس طالب علم کی کوئی خوبی نہیں بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ اِس نے قرآن مجید کے اصل پیغام یعنی ایمان و اخلاق کو نمایاں کر کے پیش کیا تھا۔
ایمان و اخلاق کی یہ دعوت چوہان صاحب کی عملی زندگی بھی رہی۔ یہ ان کا اخلاق رہی۔ یہ ان کی دعوت رہی۔ ان کا انتقال اچانک ہوا لیکن اس سے ذرا دیر قبل تک وہ ہمارے وہاٹس ایپ گروپ اور فیس بک اکاؤنٹ پر دعوت دین کے جذبے سے سرشار ہو کر دعوتی مواد شئیر کر رہے تھے۔ کیا ہی اعلیٰ عمل تھا جو ایک بندہ مومن زندگی کے آخری وقت تک اختیار کیے ہوئے تھا۔
دعوت دین کے لیے ان کی تڑپ کس درجہ میں تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ دفعہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ میں نے چند لاکھ روپے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بچا کر رکھے ہیں۔ پھر مجھے یہ پیشکش کی کہ میں یہ رقم دعوت دین کے کاموں میں استعمال کر لوں۔ میرے لیے ظاہر ہے کہ اس پیشکش کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر اس سے ان کے جذبہ ایثار و قربانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں کا ان سے واسطہ پڑا وہ جانتے ہیں کہ چوہان صاحب ایک سادہ مزاج آدمی تھے۔ لوگوں کے ہمدرد، خیرخواہ اور دوسروں کے مسائل حل کرنے کی اپنی حد تک کوشش کرنے والے۔ میری ان سے آخری ملاقات ایک ماہ قبل اس وقت ہوئی جب وہ میری ایک تقریر سننے کے لیے آئے تھے۔ ان سے ملتے وقت معلوم نہ تھا کہ اس بندہ مومن سے یہ میری آخری ملاقات ہوگی۔ مگر اب خیال آتا ہے کہ اس مخلص داعی کی اچانک موت کو بھی اللہ تعالیٰ نے دین کی دعوت ہی کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ دین کی دعوت کیا ہے؟ اس بات کی یاد دہانی کہ یہ دنیا سرائے فانی ہے جہاں موت ہر شخص کو آنی ہے۔ مگر لوگ اس موت کو بھولے رہتے ہیں۔ ایسے میں اچانک آنے والی موت ہم جیسے غافلوں کو جھنجھوڑنے کا ایک بڑا ذریعہ بن جاتی ہے۔ رہے چوہان صاحب تو اللہ نے انھیں اس سرائے فانی کی سختیوں سے بچا کر اپنے قرب کی راحت اور فردوس کی ابدی بستی کے ایک مکین کے طور پر منتخب کرلیا۔ کیا ہی خوب بدلہ ہے جو نیکو کاروں کے لیے ان کے مہربان رب نے تیار کر رکھا ہے۔
موت ہر شخص کو آنی ہے۔ بہترین شخص وہ ہے جس کی موت کے وقت قرآن کی ایمان و اخلاق کی تعلیم جس پر جنت کا وعدہ ہے، یہ گواہی دے کہ سرائے فانی کے اس مسافر نے زادِ راہ کے طور پر مجھے اپنائے رکھا تھا۔ چوہان صاحب بلاشبہ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے۔