جہنم کی قید ۔ ابویحییٰ
میں پچھلے چار گھنٹے سے اپنے ہی گھر کی اسٹڈی میں قید ہوں۔ میں عشا کی نماز پڑھ کر یہاں آیا تھا اور اپنے بچے کی دراندازی سے بچنے کے لیے دروازہ لاک کر دیا تھا۔ دوبارہ دروازہ کھولنے کی کوشش میں لاک ٹوٹ گیا۔ دروازہ توڑنے سے بچنے کے لیے گھر والے اور میرے دوست پچھلے چار گھنٹے سے کسی چابی والے کی تلاش میں ہیں مگر بے سود۔
بھوک پیاس اور اس قید میں جو سب سے بڑی دریافت میں نے کی ہے اور جسے اس وقت میں تحریر کر رہا ہوں وہ قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’پس چکھو (عذا ب کا مزہ) جیسے تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا۔ (آج) ہم بھی تمہیں بھول چکے ہیں اور چکھو ہمیشہ رہنے والے عذاب کا مزہ اپنے اعمال کی پاداش میں۔‘‘
یہ سورہ سجدہ کی آیت 14 ہے۔ اسی سورت کی آیت 20 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دیے جائیں گے۔‘‘
اپنے ہی گھر میں اور اس احساس کے ساتھ کہ میرے گھر والے، رشتہ دار اور میرا عزیز دوست ضیا مسلسل مجھے یاد رکھے ہوئے اور مجھے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، میرے لیے یہ قید کاٹنا آسان ہے۔ مگر مجھے یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ جہنم میں قید ان لوگوں کی بے کسی کا کیا عالم ہو گا جن کو جہنم کے قید خانے میں بدترین عذاب دیے جا رہے ہوں گے۔ یہاں سے نکلنے کی واحد امید اللہ کی ذات ہوگی۔ مگر اللہ انہیں بھول چکا ہوگا۔ اب رہے جہنم کے دروازے تو ان پر جہنم کے وہ سخت گیر داروغہ تعینات ہوں گے جو ان کے باہر نکلنے کی ہر کوشش ناکام بنا دیں گے۔
کاش انسان اس دن کے آنے سے قبل جہنم کی اس مایوسی اور اس کے عذاب کی شدت کو سمجھ لیں۔ کاش قید خانے میں جانے سے قبل لوگ خود کو اس قید سے چھڑا لیں۔