ایک سجدے کے عوض ۔ ابویحییٰ
آخر کار 20 اکتوبر 2011 بروز جمعرات لیبیا کے حکمران معمر قذافی کو ہلاک کر دیا گیا۔ جون 1942 میں پیدا ہونے والے قذافی کی عمر موت کے وقت 69 برس تھی۔ ان میں سے 42 برس وہ لیبیا کے بلا شرکت غیر حکمران رہے۔ جمہوریت کو تو چھوڑیے کہ جس میں بیشتر ملکوں میں حکمران 5 برسوں میں بدل جاتے ہیں، قدیم بادشاہت میں بھی چند ہی مثالیں ملتی ہیں جب کوئی شخص 40 برس سے زائد عرصے تک مسند اقتدار پر فائز رہا ہو۔
انسانی خواہشات کی اگر کوئی فہرست ترتیب دی جائے تو اس میں سب سے بنیادی خواہش زندگی کی ہوگی اور سب سے بڑی خواہش اقتدار کی۔ زندگی اور اقتدار کوئی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ انسان کو ایک روز یہ دونوں چیزیں مجبوراً چھوڑنی پڑتی ہیں۔ چاہے انسان کی زندگی 69 سال کی ہو یا اس کا اقتدار 42 برسوں پر محیط ہو جائے۔
اس کائنات میں صرف ایک ہستی ہے جس کی زندگی کو موت کا اندیشہ نہیں اور جس کے اقتدار کو کسی بغاوت اور تبدیلی کا خوف نہیں۔ وہ اللہ پروردگار عالم ہے۔ ۔ ۔ معبود برحق۔ ۔ ۔ بادشاہِ حقیقی۔ وہ زندہ ہے اور اس کا اقتدار ہمیشہ رہے گا۔ جس انسان کو اس بات کا یقین ہو جائے وہ قذافی جیسے لوگوں سے لے کر ایک عام انسان کی موت کی خبر سن کر بے اختیار سجدے میں گرجائے۔ وہ رو رو کر کہے گا کہ پروردگار یہ صرف تیری ذات ہے جسے موت نہیں۔ یہ صرف تیرا اقتدار ہے جسے زوال نہیں۔ پروردگار کو یہ سجدہ اتنا محبوب ہوتا ہے کہ اس کے جواب میں وہ ایک فانی اور عاجز انسان کو ہمیشہ کی زندگی اور جنت کا نہ ختم ہونے والا اقتدار دے دیتا ہے۔
کتنا کمزور ہے یہ عاجز انسان جو زندگی اور اقتدار کی خواہش کے باوجود ان سے محروم ہو جاتا ہے۔ کتنا کریم ہے وہ ر ب جو ایک سجدے کے عوض یہ سب کچھ اسے عطا کر دیتا ہے۔