ہم خود کو بہت سیانا سمجھتے ہیں ۔ یاسر پیرزادہ
ہم سب لوگ خود کو بہت سیانا سمجھتے ہیں، ہمیں یہ زعم ہے کہ ہم زندگی کے فیصلے بہت سمجھداری سے کرتے ہیں، ہمیں یہ خوش فہمی ہے کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ہم عقل سے کام لیتے ہیں، ہمیں یہ مغالطہ ہے کہ اپنے روزمرہ کے معاملات میں ہم دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہمیں یہ گمان ہے کہ ہمارے ہر فیصلے کی بنیاد مفروضوں کی بجائے ٹھوس حقائق پر ہوتی ہے۔ چلئے اِن باتوں کو آزما کر دیکھتے ہیں۔
اِس خاتون سے ملیے، عمر 30 برس، تعلیم ایم بی اے، وزن پچاسی کلو، گزشتہ دو سال سے وزن کم کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں مگر کامیاب نہیں ہوئیں، نیک نیت ہیں، پڑھی لکھی ہیں، بسکٹس سے لے کر کیک تک ہر چیز کی غذائیت کے بارے میں انہیں اچھی طرح پتہ ہے، وزن کم کرنے کی تمام تکنیک انہیں زبانی یاد ہیں، انہیں یہ علم ہے کہ بڑھتا ہوا وزن اِن کی صحت اور حسن کے لیے اچھا نہیں مگر اِس کے باوجود وزن کم کرنے میں ناکام ہیں۔
اِن صاحب سے ملیں، اِن کی عمر پچاس برس ہے، یہ بھی پڑھے لکھے ہیں، سگریٹ نوش ہیں بلکہ بلانوش ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عادت کن بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے، اِس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، مگر اب تک نہیں چھڑا پائے۔
اِس بزنس مین سے ملیں، یہ بھی ایک سیانا آدمی ہے، خوش حال ہے، اپنے بزنس کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے، اس کے لیے مختلف منصوبے بناتا ہے مگر کسی پر عمل نہیں کر پاتا، گزشتہ پانچ برس میں اِس مرد عاقل نے نئے سال کے موقع پر پانچ منصوبے بنائے مگر کسی ایک پر بھی عمل نہیں کر پایا حالانکہ اسے اچھی طرح علم ہے کہ اگر وہ اِن میں سے ایک پر بھی عمل کرلیتا تو آج اُس کا کاروبار کئی گنا بڑھ چکا ہوتا اور اب اِس نوجوان کو دیکھئے، اے لیول میں پڑھتا ہے، مستقبل میں امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں داخلے کا خواہشمند ہے، ذہین ہے مگر موبائل فون کے نشے میں مبتلا ہے، دن کا زیادہ تر وقت موبائل فون میں ضائع کر دیتا ہے، پڑھائی سے توجہ ہٹ چکی ہے، اس صورتحال کا بخوبی ادراک ہے مگر خود کو بے بس محسوس کرتا ہے، ہر ایک منٹ بعد ہاتھ خود بخود موبائل فون کی طرف اٹھ جاتے ہیں اور وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔
اِس قسم کی کروڑوں مثالوں سے دنیا بھری پڑی ہے، لوگ جانتے بوجھتے ہوئے ایسے کام کرتے ہیں، ایسے فیصلے کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں ایسا انتخاب کرتے ہیں جو اکثر اوقات اُن کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ہم سب کو برگر، چپس، سوفٹ ڈرنک، سگریٹ کے نقصانات کا علم ہے مگر اس کے باوجود ہم خود کو اُن سے روک نہیں پاتے۔ ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال سراسر وقت کا ضیاع ہے مگر ہم غیر ارادی طور پر اِس سے چمٹے رہتے ہیں اور ہمیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کامیابی کے لئے اچھی منصوبہ بندی پر عمل درآمد ضروری ہے مگر اِس کے باوجود ہم اِس کلیے پر عمل نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ بنیادی طور پر سہل پسند ہوتے ہیں اور وہ دانش مندانہ فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا فیصلہ کرتے ہیں جو آسان اور پُرلطف ہو۔ لوگوں کے پاس چونکہ سوچنے کا وقت کم ہوتا ہے، پرانی عادتوں سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے اسی لیے لوگ غیرصحت بخش غذا کھاتے ہیں چاہے اُن کے سامنے جلی حروف میں غذائیت کا چارٹ ہی کیوں نہ لٹکا دیا جائے، وہ وزن کم کرنے کی اچھی نیت رکھنے کے باوجود یہ سوچ کر گلاب جامن منہ میں ڈال لیتے ہیں کہ ایک سے کچھ نہیں ہوتا اور اِس کا مزا بھی خوب ہے۔ اِس انسانی رویے کو امریکی ماہر معاشیات رچرڈ تھیلر نے ایک تھیوری کی شکل میں پیش کیا اور ثابت کیا کہ کیسے انسانوں کے نفسیاتی مفروضے معاشی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اِس کو سمجھانے کے لیے انہوں نے ایک ترکیب ایجادکی جسے Nudging کا نام دیا، اِس لفظ کا اردو ترجمہ ٹہوکا لگانا ہوسکتا ہے، سو موصوف کی تھیوری کو ہم نظریہ ٹہوکا کہہ سکتے ہیں، اِس نظریئے کے خالق کے طور پر پروفیسر تھیلر کو 2017 میں نوبل انعام سے نوازا گیا اور بارہ کروڑ روپے کی رقم نذرانے کے طور پر انہیں پیش کی گئی جس کے بارے میں پروفیسر صاحب نے کہا کہ جتنا ممکن ہوا میں اِس پیسے کو غیردانشمندانہ انداز میں خرچ کروں گا۔
Nudging Theory ہمیں بتاتی ہے کہ فیصلہ سازی کرتے وقت لوگ اپنی عقل کا مکمل استعمال نہیں کرتے بلکہ اُن کی سماجی ترجیحات، آرام پسندی اور خود پر قابو نہ رکھ پانے کی کمزوری فیصلے کے وقت آڑے آجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ طویل المدت دانش مندانہ منصوبہ بندی کے مقابلے میں اکثر شارٹ ٹرم پُرلطف فیصلوں کی جیت ہوتی ہے، یعنی عقل لاکھ کہے کہ ڈبل ڈیکر برگر نہیں کھانا، دل پر قابو نہیں رہتا۔ Nudging Theory نہ صرف روز مرہ فیصلوں میں کام آتی ہے بلکہ اس کا استعمال کاروباری تکنیک اور حکومتی معاملات کو درست کرنے میں بھی ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بینک اپنے سو کھاتے داروں کو خط لکھتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی زندگی کا بیمہ ایک بہترین بین الاقوامی کمپنی سے کروا دیں تو براہ کرم ہمیں اگلے سات دن میں اپنی رضامندی سے مطلع فرمائیں، ہم بیمے کی رقم آپ کے اکاونٹ سے کاٹ کر انشورنس پالیسی گھر بھجوا دیں گے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا بینک اپنے سو کھاتے داروں کو یہی پیشکش کرتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اگر آپ یہ بیمہ نہیں چاہتے تو ہمیں آگاہ کریں بصورت دیگر ہم سمجھیں گے کہ آپ رضامند ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ان دونوں بینکوں میں سے موخر الذکر بینک کو زیادہ بیمہ پالیسیاں ملیں گی کیونکہ ایسے لوگ کم ہوں گے جو بینک کو یہ لکھنے کی زحمت کریں گے کہ ہم پر بیمہ مسلط نہ کیا جائے۔
یہی تکنیک ایک بہتر انداز میں سپین کی حکومت نے ایک قانون کی شکل میں اپنائی اور اعلان کیا کہ مرنے کے بعد لوگوں کے جسم کے اعضا معذور لوگو ں کو عطیہ سمجھے جائیں گے تاہم جو شخص خود کو اِس سے باہر رکھنا چاہتا ہے وہ حکومت کو مطلع کر دے، یوں سپین دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں اعضا عطیہ کرنے والوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ Nudge Theory کو دنیا کے کئی مماک نے اپنے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے تو اس مقصد کے لیے Nudge Unit بھی قائم کیا تھا تاکہ nudging کے نت نئے طریقوں سے انسانی رویوں کو دریافت کرکے گورننس بہتر کی جاسکے۔ روزمرہ کے معاملات میں بھی یہی تھیوری کارفرما ہے، لوگ اپنی گراسری خریدتے وقت ایسی چیزیں زیادہ خریدتے ہیں جو سامنے آسانی سے نظر آتی ہیں اور جس کے لیے کسی کو انہیں ٹہوکا (nudge) نہ دینا پڑے، سو حل یہ ہے کہ اگر آپ سافٹ ڈرنک سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو مہینے کے سامان میں ڈرنکس کے کین ہی نہ لائیں اور اگر موبائل فون کی لت پڑ چکی ہے تو اسے آف کرکے کمرے سے باہر رکھ کر دیکھیں، نہ نو من تیل ہوگا نہ فون باجے گا۔
ہم پاکستانی بھی چونکہ اسی دنیا کا حصہ ہیں اور ویسے ہی آرام طلب ہیں سو اپنے ہاں بھی یہ تھیوری پوری طرح لاگو ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ذمے کوئی کام نہیں، سارا کام حکومت کا ہے، لہٰذا کوئی ہمیں ٹہوکا نہ دے کہ گلی میں کوڑا مت پھینکو یا تجاوزات سے سڑک مت روکو، ہم نے یہ غیردانشمندانہ اور سہل پسندانہ فیصلے خود ہی کر رکھے ہیں اور اب اِس امید پر بیٹھے ہیں کہ کوئی فوق البشر آکر یہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ یہ امید لگانا بالکل ایسے ہی ہے جیسے وزن کم کرنے کی نیت کرنا اور پھر اگلے ہی لمحے رس ملائی کا آرڈر دے کر سوچنا کہ ایک مرتبہ کھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔