For Whom The Bell Tolls
معروف امریکی سینیٹر جان مکین 25 اگست 2018 کو انتقال کرگئے۔ ایک امریکی سینیٹر کا انتقال کوئی ایسی بات نہیں جس پر ایک مضمون لکھا جائے۔ مضمون کی وجہ تصنیف وہ ڈاکومنٹری ہے جو جان مکین کے انتقال سے قبل ان کی زندگی پر بنائی گئی۔ پچھلے سال جان مکین کو برین ٹیومر کی تشخیص ہوئی تھی۔ جس کے بعد ان کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری بنائی گئی تھی جس کا عنوان For whom the bell tolls تھا۔ اس سال مئی میں یہ ڈاکومنٹری منظر عام پر آئی اور اس پر معروف صحافی رؤف کلاسرا صاحب نے ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ یہ مضمون ہماری سیاسی اقدار کا ایک نوعیت سے نوحہ بھی تھا کہ کس طرح دنیا بھر کے سیاستدان اخلاقیات کا پاس کرتے ہیں اور ہمارے سیاستدان کس طرح اس کو پامال کرتے ہیں۔
یہ ڈاکومنٹری اس قابل ہے کہ اسے دیکھا جائے اور سیکھا جائے کہ اصولوں کے مطابق سیاست کرنا کسے کہتے ہیں۔ کس طرح قومی اور عوامی خدمت کا جذبہ ایک سیاستدان کو پارٹی وابستگی سے بلند کر دیتا ہے۔ کس طرح اخلاقی اقدار کا شعور اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کو پھیلانے سے روکتا اور اس کی حمایت پر مجبور کر دیتا ہے۔
ڈاکومنٹری کے نام کا مفہوم
مزید آگے بڑھنے سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ For whom the bell tolls کا مفہوم واضح کر دیا جائے۔ یہ جملہ ایک انگریز شاعر جان ڈن کے کلام کا ایک جز ہے۔ اس کی بات کو سمجھانے کے لیے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں کسی کے انتقال پر اطلاع دینے کے لیے مساجد میں اعلان کیا جاتا ہے،اسی طرح مسیحی حضرات میں علاقے میں کسی کی موت کی اطلاع دینے کے لیے چرچ کی گھنٹی بجائی جاتی ہے۔ اسے فیونرل ٹال (Funeral Toll) کہتے ہیں۔ چنانچہ شاعر نے اس چیز کو اٹھا کر اس طرح بیان کیا ہے۔
Each man’s death diminishes me,
For I am involved in mankind.
Therefore, send not to know
For whom the bell tolls,
It tolls for thee.
مطلب یہ کہ ہر انسان کی موت میرا ہی نقصان ہے کیونکہ میں انسانیت سے متعلق ہوں۔ اس لیے جب گرجہ کی گھنٹی بجے تو کسی کو یہ پوچھنے کے لیے نہ بھیجو کہ یہ کس کی موت پر بجائی جارہی ہے۔ یہ تو تمھارے لیے ہی بجائی جارہی ہے۔
یہاں سے اس جملے کو نوبل انعام یافتہ مصنف ارنسٹ ہمنگ وے نے لیا اور دوسری جنگ عظیم سے قبل اسپین میں جاری خانہ جنگی کے موضوع پر لکھے جا نے والے اپنے مشہور ناول کا نام بنا دیا۔ اسپین کی خانہ جنگی اس اعتبار سے مغرب کی تاریخ میں بڑی اہم ہے کہ یہ فاشزم کے عروج کا زمانہ تھا اور اٹلی میں مسولینی کا طوطی بول رہا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں اسپین میں جمہوریت پسندوں اور فاشسٹ قوم پرستوں کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی۔ فاشسٹوں کو مسولینی اور ہٹلر کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ چنانچہ ان کے مقابلے کے لیے تمام مغربی دنیا سے رضاکار جمہوریت پسندوں کی طرف سے لڑنے کے لیے اسپین پہنچے۔ ارنسٹ کے ناول کا ہیرو بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو امریکہ سے اسپین یہ جنگ لڑنے گیا اور اپنی جان اور محبت دونوں ایک اعلیٰ مقصد کے لیے قربان کر دی۔
جان مکین اور ناول
ناول کا یہ نام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کو اپنی ذات سے بلند ایک اعلیٰ مقصد کے لیے جینا چاہیے۔ یہ ناول جان مکین نے چھوٹی عمر میں اپنے والد کی لائبریری سے پڑھا اور زندگی بھر وہ اس ناول اور اس کی کہانی کے مرکزی خیال کے اسیر ہوگئے کہ انسان کو اپنی ذات سے بلند ایک اعلیٰ مقصد کے لیے جینا چاہیے۔ جان مکین بڑے ہوئے تو اپنے باپ اور دادا کی طرح جو نیوی کے فور اسٹار جنرل تھے، نیوی میں شامل ہوئے۔ اسے اپنے ذوق کے مطابق نہ پاکر بعد میں فضائیہ میں شامل ہوگئے۔ ویتنام کی جنگ میں امریکہ کی طرف سے حصہ لیا۔ ایک ہوائی مشن میں ان کا جہاز تباہ ہوگیا اور وہ قیدی بنا لیے گئے اور پانچ برس تک انتہائی تکلیف دہ قید جھیلی۔
وطن لوٹنے کے کچھ عرصے بعد سیاست میں حصہ لیا۔ 1983 میں وہ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 1987 میں سینیٹر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک مسلسل چھ دفعہ اس منصب کے لیے چنے گئے۔ اس کے علاوہ سن 2000 میں وہ ریپبلکن صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہوئے، مگر ابتدائی مرحلے میں جارج بش ان سے آگے نکل گئے۔ تاہم 2008 میں وہ ایک دفعہ پھر اس دوڑ میں شامل ہوئے اس دفعہ وہ باراک اوباما کے مقابلے میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار منتخب ہوئے۔ مگر ان کی بدقسمتی کہ صدر بش اپنے آٹھ برسوں میں امریکہ کو اتنا بدحال چھوڑ کر گئے تھے کہ لوگ مزید کسی ریپبلکن امیدوار کو موقع دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ وہ صدر نہ بن سکے۔
تاہم سن 83 سے اپنی وفات تک 35 برسوں میں انھوں نے انتہائی فعال سیاسی زندگی گزاری۔ انھوں نے ان گنت اہم قوانین کی منظوری میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے اپنی پارٹی ریپبلکن کے علاوہ مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کے ساتھ مل کر اور پارٹی پالیٹکس سے بالاتر ہوکر اپنی قوم کے مفاد میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔
قانون سازی کی اہمیت
اہل پاکستان کو یہ بات بڑی عجیب لگے گی کہ اسمبلی کا ایک ممبر عام آدمی کے مفاد کے لیے کوئی قانون بنانے کی جدوجہد کرے اور اس مقصد کے لیے مخالف پارٹی کے حق میں اور اس کے اراکین کے ساتھ مل کر بھی قانون سازی میں حصہ لے۔
دراصل یہ پاکستانی سیاست کا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں امریکہ کے برعکس اصلاً پارلیمانی نظام نافذ ہے، پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ بظاہر تو یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی ہے اور وہ اسی پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے۔ ہر قانون پارلیمنٹ میں بنتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں پارٹی کا سربراہ اور وزیراعظم سب کچھ ہوتا ہے۔ ہر قانون اسی کی مرضی اور ایما پر بنتا ہے۔ ارکان اسمبلی کی حیثیت ربر اسٹیمپ کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر لوگ کیوں ممبر بنتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک کاروبار ہے۔ کروڑوں خرچ کرکے لوگ اس لیے اسمبلی میں آتے ہیں کہ اسے اربوں میں تبدیل کریں۔ اس معاملے میں وہ اس حد تک جاتے ہیں جس کا ذکر رؤف کلاسرا صاحب نے اپنے مذکورہ بالا کالم میں کیا تھا کہ صرف پانچ ہزار روپے کے الاؤنس کے لیے ارکان اسمبلی اپنی جعلی حاضریاں لگواتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کسی کردار، امانت اور دیانت کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
خرابی کا علاج
اس تحریر کا مقصد مایوسی پھیلانا یا جمہوریت کے بجائے آمریت کی کسی قسم کی تائید کرنا ہرگز نہیں۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جمہوریت اس عمل کا نام ہے جس میں جان مکین جیسے لوگ ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے اسمبلی کے ممبر بنتے ہیں۔ یہ کیسے ہوگا اس پر ہم آگے بات کریں گے، مگر سردست یہ گزارش پیش کرنا ہے کہ اس طرح کی تمام بدعنوانیوں کا جو علاج خود جمہوری ممالک نے نکالا ہے وہ شفافیت اور معلومات تک رسائی کا قانون ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ سیاستدانوں کو کنٹرول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی ذاتی زندگی، مالی معاملات، حکومتی سطح پر کیے گئے تمام سودے اور اس طرح کی تمام چیزوں کی تمام معلومات عوام کی رسائی میں ہوں۔ اس کے بعد صحافی حضرات ان تمام خرابیوں اور بدعنوانیوں کو عوام کے سامنے لے آتے ہیں۔ اسی وجہ سے جمہوریت میں صحافت کو مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے بعد ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ شفافیت اور معلومات تک عوام کی رسائی سیاستدانوں کو کنڑول کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ حکومتی سطح پر جو چیز چھپائی جاتی ہے اس میں بدعنوانی خود بخود ہوجاتی ہے۔
باقی اس مسئلے کا اصل حل کہ کرپٹ اور نااہل لوگوں کے بجائے باکردار اور خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ سیاست میں آئیں، وقت طلب ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست میں رہ کر سیاست کی اصلاح نہیں کی جاسکتی۔ یہ سیاست سے باہر رہنے والے دانشوروں اور مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی تربیت کریں۔ ان میں اخلاقی شعور کو پیدا کریں۔ جان مکین کی زندگی میں ایک کتاب نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کتاب نے ان کو یہ اصول دیا کہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کوئی مقصد بنانا چاہیے اور اس کے لیے زندگی لگا دینی چاہیے۔
یہی وہ شعور ہے جو آج ہمیں لوگوں میں پھیلانا ہے۔ آج کے لوگ چاہے اس پکار کو نہ سنیں، اگلی نسل ضرور سنے گی۔ مستقبل میں ایسے لوگ سیاست میں آئیں گے جو ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی مفاد اور اصولوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔
دوسروں کی موت میں اپنی خبر
مضمون کے آخر میں For whom the bell tolls کے ایک دوسرے مفہوم کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے۔ انگریز شاعر نے جو بات کہی تھی اس کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ موت کی اطلاع دینے والی گھنٹی کے بعد یہ جاننے کے لیے کسی کو نہ بھیجو کہ یہ کس کے لیے بجائی گئی ہے۔ یہ دراصل تمھارے لیے بجائی گئی ہے۔ یہ اس بات کا وہ دوسرا مفہوم ہے جسے سیاستدانوں کو ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو سمجھنا چاہیے۔ اس دنیا میں بادشاہ بھی موت سے نہیں بھاگ سکتے۔ ہر شخص یہاں مرنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں دوسروں کی موت کی اطلاع پر انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اس کے لیے ایک وارننگ ہے۔ جو حادثہ دوسروں کے ساتھ پیش آیا ہے وہ تمھارے ساتھ بھی پیش آئے گا۔ چاہے کوئی شخص جائز ناجائز طریقے سے اربوں بنا لے، اسے ایک روز سب کچھ چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں انسان سے زندگی کے ہر ہر لمحے کا حساب ہوگا۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو آج زندگی کی مہلت عمل سے فائدہ اٹھا کر آخرت کی تیاری کرے۔ جس نے نافرمانی اور غفلت کا راستہ اختیار کیا، جلد وہ جہنم کو اپنا ٹھکانہ پائے گا۔ اس لیے کسی کی موت کی اطلاع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دراصل ہماری موت کی اطلاع ہے جو پیشگی طور پر ہمیں دے دی گئی ہے۔
Therefore, send not to know
For whom the bell tolls,
It tolls for thee.
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث ِزحمت نہیں، باعثِ رحمت بن کر رہیے۔