تعصب کا مرض ۔ ابویحییٰ
تعصب ایک روحانی بیماری ہے جو انسان کو بہت زیادہ تکلیف دیتی ہے۔ یہ بیماری ہم میں سے ہر شخص کو کسی نہ کسی درجہ میں لاحق ہوتی ہے۔ مگر ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم اپنی پسند کے لوگوں میں رہتے ہیں، اس لیے ہمیں اس بیماری سے پہنچنے والی اذیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر فیس بک پر اب ہر شخص کے سیکڑوں، ہزاروں فرینڈز ہوتے ہیں۔ ان کی کسی پوسٹ میں کوئی ایسی بات ہو جو ہمارے اپنے تعصبات کے خلاف ہو تو یہ پوسٹ ہمیں ایک نوعیت کی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
مثلاً ہمارا ایک تعصب مذہبی ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر مذہبی شخص شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی، مقلد غیرمقلد اور اسی طرح کے دیگر فرقہ وارانہ اور نظریاتی تعصبات کا اسیر ہوتا ہے۔ اب جیسے ہی ہمارے تعصب سے ہٹ کر کوئی چیز سامنے آئے ہم سخت اذیت میں آجاتے ہیں اور پھر ساری معقولیت بھول کر غصے اور ردعمل کا شکار ہوکر مختلف طریقوں سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم لوگ مختلف سیاسی تعصبات کے اسیر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی ہمارے تعصبات کے خلاف کوئی پوسٹ ہم تک پہنچتی ہے، ہمیں ایک اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جس کے بعد ہم ہر اخلاقی جامہ اتار کر اپنے ردعمل کا اظہار کر دیتے ہیں۔
ہمارا ایک اور تعصب لسانی اور صوبائی تعصب ہے۔ ہم پنجابی، پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی اور ان جیسے دیگر تعصبات کے اسیر ہیں۔ جب ہمارے تعصب کے خلاف کوئی بات سامنے آجائے تو ہم ساری معقولیت کو کونے میں رکھ کر اپنے غصے اور جذبات کا اظہار شروع کر دیتے ہیں۔
اگر کسی بھی معاملے میں آپ کا رویہ یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے تو آپ تعصب کے مرض کا شکار ہیں۔ اس کے بعد لاکھ الفاظ بول کر آپ اپنی حقانیت یا معقولیت ثابت کریں، بااعتبار حقیقت آپ تعصب کے مریض ہیں۔ یہ مرض ایک روحانی مرض ہے جو انسان کو سچ اور عدل جیسی بنیادی اخلاقی خوبیوں کا قاتل بنا دیتا ہے۔
ایک فرقہ پرست اور مذہبی انتہا پسند کے سامنے اس کے فرقے سے مختلف جب کوئی بات سامنے آتی ہے تو وہ عدل و انصاف کے سارے تقاضے بھول جاتا ہے۔ وہ جھوٹ، تاویل، الزام، بہتان کی ایسی گرد اڑاتا ہے کہ سچائی اس دھول میں چھپ کر رہ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ خود کو بہت نیک سمجھ رہا ہوتا ہے، مگر اللہ کی نظر میں وہ ایک مجرم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ جیسے ہی مرے گا عذاب کے فرشتے اسے بتا دیں گے کہ وہ سچائی کا قاتل اور عدل کا دشمن تھا۔
ایک سیاسی متعصب شخص کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی لیڈر کے عشق میں مخالف فریق کی ذات، خاندان اور خواتین کی عزت کی دھجیاں بکھیرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ مگر ایسا شخص جب مرے گا تو دیکھے گا کہ اپنے لیڈر کے عشق میں اس نے اپنی آخرت گنوا دی۔
نسل پرست متعصب شخص کا بھی یہی المیہ ہوتا ہے۔ وہ سچائی کو اپنے قومی تعصب کی عینک سے دیکھتا ہے۔ جس کے بعد اسے کوئی دوسری سچائی نظر نہیں آتی۔ وہ دوسروں کو ظالم اور اپنے ہر ظلم کو عدل ثابت کرنے کی کوشش میں جھوٹ اور دورغ گوئی کی ہر حد پار کر جاتا ہے۔
تعصب کے اسیر لوگ بظاہر اصول پرست، نظریاتی اور خیر کے طلبگار بن کر معاشرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر درحقیقت یہ لوگ سب سے بڑھ کر معاشرے میں فساد پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اگر اخلاقی طور پر پست نہ ہوں تو کسی کے سمجھانے سے اپنی تعصب کی دنیا سے نکل آتے ہیں۔ مگر اخلاقی پستی ان کا احاطہ کرلے تو پھر اِس دنیا میں تعصب کی بیماری اور آنے والی دنیا میں جہنم کی آگ ان کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دے گی۔
بندہ مومن کبھی متعصب نہیں ہوتا۔ وہ ہر چیز کو عدل کے ساتھ دیکھتا اور انصاف کی بات کہتا ہے چاہے وہ اس کے نظریات اور پسند کے کتنے ہی خلاف ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔