ویلنٹائن ڈے 2 ۔ ابویحییٰ
مرد و عورت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہے (روم:21 :30)۔ اس تعلق کی بنیاد اُس کشش پر ہے جو انسانی جبلت (Instinct) میں رکھ دی گئی ہے تاکہ نسل انسانی آگے بڑھ سکے۔ یہ کشش نہ ہو تو صرف ایک نسل بعد پوری انسانیت دم توڑ دے گی۔ مرد و زن کی باہمی کشش انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اکٹھے ہوں اور خاندان کا ادارہ تشکیل دیں۔ خاندان نہ ہو تو معصوم بچے اور ناتواں بزرگ زمانے کی سختیوں کو جھیلنے کے لیے تنہا رہ جائیں گے۔ مرد و زن کے اس تعلق کی ایک اور بڑی اہمیت بھی ہے۔ دوسری تمام نعمتوں کی طرح یہ بھی انسانوں کو خالقِ کائنات کی ان بے کراں عنایات کا ایک ادنیٰ سا تعارف کراتا ہے جو اس نے جنت کی ابدی زندگی میں ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔
مگر مرد و زن کی یہ کشش بارہا اپنے ان مقاصد تک محدود نہیں رہتی۔ شیطان انسان کی راہ میں بیٹھتا ہے اور خود اس کو ایک مقصود بنا دیتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نمونہ مغربی معاشروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ وہاں حیا کا فطری جذبہ بہت محدود اور عفت و عصمت (Chastity) ایک قدر کے طور پر باقی نہیں رہے۔ میاں بیوی کا محدود اور پاکیزہ تعلق مرد و زن کے بے قید شہوانی تعلق میں بدل چکا ہے۔ اس تعلق میں دو انسان ’’رفع حاجت‘‘ کے لیے باہم ملاقات کرتے ہیں اور دل بھر جانے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے اس آزاد تعلق کو منانے کا دن ہے۔ اس کی ابتدا کے متعلق یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بت پرست رومی تہذیب سے شروع ہوا یا تثلیث کے فرزندوں کی پیداوار ہے مگر اس کا فروغ ایک ایسے معاشرے میں ہوا جہاں حیا کی موت نے ہر (Love Affair) کو (Lust Affair) میں بدل دیا ہے۔ مغرب کا یہ تحفہ اب کرسمس کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مقبول تہوار بن چکا ہے۔ ہر گزرتے سال، میڈیا کے زیر اثر، ہمارے ملک میں بھی اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ہم مغرب سے آنے والی ہر چیز کے مخالف نہیں۔ مگر کسی دوسری قوم کے وہ تہوار، جن کا تعلق کسی تہذیبی روایت سے ہو، انہیں قبول کرتے وقت بڑا محتاط رہنا چاہیے۔ یہ تہوار اس لیے منائے جاتے ہیں تاکہ کچھ عقائد و تصورات انسانی معاشروں کے اندر پیوست ہوجائیں۔ مسلمان عیدالاضحیٰ کے تہوار پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدا سے آخری درجہ کی وفاداری کی یاد مناتے ہیں۔ آج ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں تو گویا ہم اس نقطۂ نظر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مرد و عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عصمت مطلوب نہیں۔ اپنے نوجوانوں سے ہم پاکدامنی کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
کوئی ہندو عید الاضحی کے موقع پر گائے کو ذبح کرکے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونے کا تصور نہیں کرسکتا۔ لیکن ہندوؤں کی موجودہ نسل گائے کے تقدس سے بے نیاز ہو کر عید کی خوشیوں میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوجائے تو عین ممکن ہے کہ ان کی اگلی نسلیں صبح سویرے مسلمانوں کے ساتھ گائیں ذبح کرنے لگیں۔ ٹھیک اسی طرح آج ہم ویلنٹائن ڈے پر خوشیاں منا رہے ہیں اور ہماری اگلی نسلیں حیا و عصمت کے ہر تصور کو ذبح کرکے ویلنٹائن ڈے منائیں گی۔
اسے دور کی کوڑی مت خیال کیجیے۔ ہماری موجودہ نسلیں صبح و شام اپنے گھروں میں مغربی فلمیں دیکھتی ہیں۔ عریاں اور فحش مناظر ان فلموں کی جان ہوتے ہیں۔ ان میں ہیرو اور ہیروئن شادی کے بندھن میں جڑے بغیر ان تمام مراحل سے گزر جاتے ہیں جن کا بیان میاں بیوی کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر جو نسلیں جوان ہوں گی وہ ویلنٹائن ڈے کو ایسے نہیں منائیں گی جیسا کہ آج اسے منایا جارہا ہے۔ جب وہ نسلیں اس دن کو منائیں گی تو خاندان کا ادارہ درہم برہم ہوجائے گا۔ اپنے باپ کا نام نہ جاننے والے بچوں سے معاشرہ بھر جائے گا۔ مائیں حیا کا درس دینے کے بجائے اپنی بچیوں کو مانع حمل کے طریقوں کی تربیت دیا کریں گی۔ سنگل پیرنٹ (Single Parent) کی نامانوس اصطلاح کی مصداق خواتین ہر دوسرے گھر میں نظر آئیں گی۔
آج سے چودہ سو برس قبل مدینہ کے تاجدار نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس کی بنیاد حیا پر رکھی گئی تھی۔ جس میں زنا کرنا ہی نہیں اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ جس میں زنا ایک ایسی گالی تھا جو اگر کسی پاکدامن پر لگا دی جائے تو اسے کوڑے مارے جاتے تھے۔ جس میں عفت کے بغیر مرد و عورت کا معاشرہ میں جینا ممکن نہ تھا۔ اس معاشرے کے بانی نے فیصلہ کردیا تھا۔
’’جب تم حیا نہ کرو تو جو تمھارا جی چاہے کرو‘‘
تاجدار مدینہ کے امتیوں نے کبھی حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ مگر اب لگتا ہے کہ امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اب وہ حیا نہیں کریں گے بلکہ جو ان کا دل چاہے گا وہی کریں گے۔ ویلنٹائن ڈے کسی دوسرے تہوار کا نام نہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ وہ تہوار ہے جب امتی اپنے آقا کو بتاتے ہیں کہ ہم وہ کریں گے جو ہمارا دل چاہے گا۔