مضامین قرآن (42) دعوت کے ردوقبول کے نتائج: روزِ قیامت ۔ ابو یحییٰ
دعوت کے ردوقبول کے نتائج: روزِ قیامت
قرآن مجید کی دعوت جس مرکزی خیال کے اردگرد گھومتی ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں کا ایک رب ہے جس کے حضور انھیں ایک روز پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ جو لوگ اِس دنیا میں رب کی مرضی کو اپنا مقصد اور اس کی اطاعت کو اپنا ہدف بنائیں گے وہ اُس روز نجات پائیں گے اور جنھو ں نے نافرمانی کو اپنا وطیرہ بنایا وہ جنت کی ابدی بادشاہی سے محروم کر کے ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنادیے جائیں گے۔
یہ دن جس کے وعدے اور تذکرے سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے قیامت کا دن ہے۔ یہ اس دنیا میں انسانی زندگی کے مختصر آغاز کا وہ انجام ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔ یہ وہ دن ہے جو ابدی اور کامل سزا وجزا کا ہو گا۔ یہ وہ دن ہے جس کے بغیر نہ انسان کی کہانی مکمل ہو سکتی ہے نہ موجودہ دنیا کی مقصدیت سمجھ میں آ سکتی ہے ۔ یہ وہ دن ہے جس دن فانی انسان کو ابدی قالب دے کر اٹھایا جائے گا اور زندگی کے ہر ہرعمل چاہے وہ رائی کے دانے برابر ہو، اس کی جانچ کر لی جائے گی۔ جس کے بعد بدکاروں کو ان کی بدی کا اور وفاداروں کو ان کی وفا کا بھرپور، مکمل اور ختم نہ ہونے والا بدلہ دیا جائے گا۔
قرآن مجید اس دن کو چار عنوانات سے زیر بحث لاتا ہے۔ ایک اس دن کی علامات، دوسرا اس کا آغاز، تیسرا اس دن رونما ہونے والی مکمل تباہی اور چوتھا اس دن کے دوسرے اور آخری حصے میں تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے ان کا جمع کیا جانا۔ ذیل میں ہم ایک ایک کر کے ان کی تفصیل کیے دیتے ہیں ۔
علامات
قرآن مجید کا جو اعلان اس کے اولین مخاطبین کے لیے سب سے زیادہ دھماکہ خیز تھا وہ قیامت کے دن کے آنے کا اعلان اور اس کا انذار تھا۔ یہ وہ دن تھا جس کی پیشی اور جس کے آنے سے خبردار کرنا انبیا علیھم السلام اور خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا لازمی حصہ تھا۔ چنانچہ پورا قرآن اس کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر کفار مکہ نے طرح طرح سے اس دعویٰ کی تکذیب کی۔ کبھی وہ اس دن کا وقت پوچھتے، کبھی کہتے کہ قیامت کا سفینہ کہاں لنگر انداز ہو گیا ہے۔ تاہم قرآن مجید نے ان کی تکذیب کے جواب میں قیامت کے وقوع کے بہت سے عقلی و فطری دلائل تو دیے جن کو ہم دلائل آخرت کے عنوان سے بیان کر چکے ہیں، مگر اس دن کے آنے کا متعین وقت بیان نہیں کیا۔ بلکہ صراحت کے ساتھ بار بار یہ بات دہرائی کہ اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا علم کسی نبی اور فرشتے کو بھی نہیں دیا تو عام لوگوں کو اس کا علم کیسے دیا جا سکتا ہے ۔
تاہم اس حوالے سے جو واحد چیز قرآن مجید کی طرف سے سامنے آئی وہ قیامت کا وقت نہیں بلکہ اس کی ایک متعین نشانی ہے جو یاجوج ماجوج کا ظہورہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے جب یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑیں ۔ اور قیامت کا شدنی وعدہ قریب آ گیا ہے تو ناگہاں ان لوگوں کی نگاہیں ٹنگی رہ جائیں گی جنہوں نے اس کا انکار کیا ہے ۔ وہ پکاریں گے ، ہائے ہماری بد بختی! ہم اس سے غفلت میں پڑے رہے۔ بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے !‘‘ (الانبیائ 21: 97-96)
قرآن مجید کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ دو مرحلوں میں ہو گا۔ پہلے مرحلے پر یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں گے یعنی ان کی یلغار کا آغاز ہو گا ۔ دوسرے مرحلے میں جب ان کی یلغار اپنی پوری شدت کو پہنچے گی اور گویا کہ شکل وہ ہو گی جو زمانہ قدیم میں کسی لشکر جرار کی پوری رفتار کے ساتھ نشیب میں موجود کسی غنیم پر ٹوٹ پڑنے کی ہوتی تھی تو اسی ہنگامے کے عین بیچ میں قیامت کا صور پھونک دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں بعض ضعیف روایات کی بنا پر قرآن مجید کی اس بات کا مدعا بالکل الٹ کر بیان کیا جاتا ہے ، اس لیے اصل بات کی نسبتاً وضاحت کے ساتھ تفصیل کی ضرورت ہے (جو لوگ اس بحث میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ ہماری کتاب ’’ملاقات‘‘ کا مضمون’یاجوج ماجوج کی حقیقت‘میں ملاحظہ کرسکتے ہیں )۔
جس وقت قرآن مجید نازل ہورہا تھا اور اس نے یاجوج ماجوج کا ذکر کیا تو ایسا نہیں تھا کہ یاجوج ماجوج کی اصطلاحات کوئی اجنبی چیزیں تھیں۔ یہ قدیم صحف سماوی کی ایک اصطلاح تھی جس سے یہود ونصاریٰ بخوبی واقف تھے۔ یہود کی مقدس کتب عہد نامہ قدیم ، تورات جس کا ایک حصہ ہے، اس میں یاجوج ماجوج کا ذکر وضاحت کے ساتھ حزقی ایل نبی کے صحیفے میں ملتا ہے ، (حزقی ایل 38: 2-1, 39: 2-1)۔ جبکہ نصاریٰ کی مقدس کتب عہد نامہ جدید المعروف انجیل میں یوحنا عارف کے مکاشفے میں ان کا ذکر آج بھی پڑھا جا سکتا ہے، (مکاشفہ 20: 9-7)۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ ذوالقرنین کا واقعہ جس میں پہلی دفعہ یاجوج ماجوج کا ذکر آیا (الکہف 94:18) وہ تو پوچھا ہی یہود نے تھا۔چنانچہ جب قرآن مجید نے یاجوج ماجوج کا ذکر کیا تو کسی طرف سے ان کے ذکر پر کوئی سوال نہیں اٹھا کہ یہ کس بلا کا نام ہے ۔
تاریخی طور پر بھی یہ معلوم ہے کہ یاجوج و ماجوج حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ قدیم صحائف سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں یہ فلسطین سے اوپر کی سمت ایشیا کے شمال میں آباد تھے اور صحیفہ حزقی ایل میں ان کاعلاقہ موجود ہ روس اور آس پاس کا بیان کیا گیا ہے۔ یہی بات ذوالقرنین کی اس تیسری مہم کے ضمن میں معلوم ہوتی ہے جو ان کی پہلی دونوں مہموں کے برعکس جو ایشیا کے مشرقی اور مغربی سمت میں تھیں، شمال کی سمت ہوئی تھی۔ اس واقعہ میں یاجوج ماجوج کا ذکر ان کی تیسری مہم کے ذیل میں ہوا ہے ۔
ایشیا کا شمالی حصہ ان کا ابتدائی مسکن تھا۔ یہ لوگ چونکہ وحشی اور غیر متمدن تھے اس لیے ایک جگہ نہ ٹھہر سکے اور وقفے وقفے سے گروہ در گروہ یہاں سے نکل کر دنیا میں پھیلتے رہے۔ ابتدا میں ان کے کچھ گروہ ایک طرف مشرق بعید اور دوسری طرف شمالی یورپ کی طرف منتقل ہوئے۔ انھی میں سے کچھ گروہ یورپ سے ہوتے ہوئے دورِ جدید میں براعظم آسٹریلیا اور براعظم امریکہ میں آباد ہوگئے اور اب یہ کہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے براعظم مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہیں ۔
جبکہ مکاشفے (جو دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک خواب ہے) سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج کا وہ خروج جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ انبیا میں ہوا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزار برس کے بعد کسی وقت ہو گا۔تاریخی طور پر معلوم ہے کہ یہ واقعہ نشاۃ ثانیہ کے بعد یورپ کی ایج آف ایکسپلوریشن کی شکل میں ہو چکا ہے۔ غالباً یہی وہ چیز ہے جسے قرآن مجید نے یاجوج ماجوج کے کھولے جانے سے تعبیر کیا ہے۔ جس کے بعد رفتہ رفتہ ان کے مختلف گروہ دنیا پر یلغار کرتے رہے ۔ انسانی تاریخ پہلے یورپین اور پھر روسیوں کا دنیا پر غلبہ دیکھ چکی ہے ۔ اس وقت ان کا تیسرا نمایاں گروہ یعنی امریکی دنیا پر غالب ہیں ۔ جس کے بعد قرآئن یہی ہیں کہ ان کا سب سے آخری نسلی گروہ یعنی زردفام چینی اقوام دنیا پر یلغار کریں گی۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ ان کی یہی وہ یورش ہو گی جس کی تصویر قرآن مجید نے کھینچی ہے اور عین اسی ہنگامے میں قیامت برپا ہوجائے گی۔
قیامت اور قرآن مجید کے اولین مخاطبین
یہاں ایک طالب علمانہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے پہلے مخاطبین یعنی قریش مکہ کو قرآن مجید نے قیامت کا زبردست انذار کیا تھا۔ اس کی پوری منظر کشی کر دی تھی۔ مگر قیامت اُس وقت کیوں برپا نہیں کی گئی۔یا اگر برپا ہی نہیں کی جانی تھی تو پھر اس کو اس طرح بیان کرنے کی کیا وجہ تھی۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ قریش مکہ سے دو میں سے کسی ایک چیز کا وعدہ کیا گیا تھا یعنی سابقہ قوموں کی طرح آنے والا عذاب یا پھر قیامت۔ وہ لوگ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو مکمل طور پر رد کر دیتے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی جاتی ۔ اس شمع ہدایت کے رخصت ہونے کے بعد صرف تاریکی کے اندھیرے بچتے ۔ انھی اندھیروں کے درمیان سے قیامت کا زلزلہ جنم لیتا اور مکہ کے باسیوں سمیت تمام انسانیت جو پہلے ہی گمراہی کا شکار تھی ، ہلاک کر دی جاتی۔ یہ وہی شکل ہوتی جو حضرت عیسیٰ ؑ کے معاملے میں ہوئی کہ ان کے کفر کے بعد رفع مسیح کا واقعہ ہوا اور پھر ان کے رخصت ہونے کے چند برس بعد یروشلم عذاب الٰہی میں تباہ ہو گیا۔
تاہم حکمت الٰہی میں یہ مقدر تھا کہ آ پ کو حضرت موسیٰ ؑکے غلبہ و اقتدار سے نسبت تھی۔ چنانچہ صحابہ کرام ایک ایک کر کے ایمان لانا شروع ہوئے ۔ ان کے ایمان کے نتیجے میں خدائی اسکیم میں طے کردہ قیامت جس کا ذکر قرآن کی ابتدائی سورتوں میں بہت تفصیل سے ہے، موخر کر دی گئی۔ اس کے بجائے خدائی اسکیم میں موجود دوسری آپشن یعنی کفار پر عذاب اور صحابہ کرام کے غلبے کو قرآن کی بعد کی سورتوں میں ان کے ہونے سے پہلے ہی کھول کر بیان کر دیا گیا۔ جس کے بعد حسب وعدہ صحابہ کرام کا غلبہ پہلے سرزمین عرب اور پھر پوری متمدن دنیا پر ہوا اور ان کے ذریعے سے پوری انسانیت اسلام کی روشنی سے فیض یاب ہوئی۔
قرآنی بیانات
’’یہ لوگ کس چیز کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہیں؟ اس بڑی خبر کے بارے میں جس میں کوئی کچھ کہہ رہا ہے کوئی کچھ! ہرگز نہیں ، وہ عنقریب جان لیں گے ، پھر ہرگز نہیں ، وہ جلد جان لیں گے !!‘‘ (النبا78: 5-1)
’’پس جب وہ بڑا ہنگامہ برپا ہو گا (تو یہ سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا)‘ اس دن انسان اپنے کیے کو یاد کرے گا اور دوزخ ان لوگوں کے لیے بے نقاب کر دی جائے گی جن کو اس سے دوچار ہونا ہے ۔ تو جس نے سرکشی کی اور آخرت کے بالمقابل دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانا تو بس جہنم ہی بنے گی۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرا اور جس نے اپنے نفس کو خواہش کی پیروی سے روکا تو اس کا ٹھکانا لاریب جنت ہے۔ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب کھڑی ہو گی؟ تم اس بحث میں کہاں پڑے ہو! یہ معاملہ تو تیرے رب کے حوالے ہے ۔ تم تو بس ان لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے والے ہو جو اس سے ڈریں ۔‘‘ (النازعات79: 45-34)
’’یہ دن شدنی ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف ٹھکانا بنا لے ۔ ہم نے تم کو ایک قریب آ جانے والے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے ، جس دن آدمی اپنی اس کمائی کو دیکھے گا جو اس نے آگے کے لیے کی ہو گی اور کافر کہے گا کاش، میں مٹی ہوتا!‘‘ (النبا 78: 40-39)
’’برا ہو، ناپ تول میں کمی کرنے والوں کا! جو دوسروں سے نپوائیں تو پورا نپوائیں اور جب ان کے لیے ناپیں یا تولیں تو اس میں کمی کریں ۔ کیا یہ لوگ یہ گمان نہیں رکھتے کہ ایک دن وہ اٹھائے جانے والے ہیں۔ ایک عظیم دن کی حاضری کے لیے ۔ جس دن لوگ اٹھیں گے خداوند دوعالم کے حضور پیشی کے لیے ۔‘‘ (المطففین83: 6-1)
’’اس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں ۔ پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ بھی اس کو دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھے گا۔‘‘ (الزلزال99:8-6)
’’وہ بلند درجوں والا اور عرش کا مالک ہے ۔ وہ ڈالتا ہے روح، جو اس کے امرمیں سے ہے ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو روزِ ملاقات سے آگاہ کر دے ۔‘‘ (مومن15:40)
’’کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو زمیں میں پھیلایا ہے اور تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ دھمکی کب پوری ہو گی، اگر تم لوگ سچے ہو! کہہ دو، یہ علم اللہ ہی کے پاس ہے ، میں تو بس ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں ۔ پس جب وہ اس کو دیکھیں گے قریب آتے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جس کا تم مطالبہ کر رہے تھے ۔‘‘ (الملک67: 27-24)
’’وہ تم سے قیامت کے باب میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو بس میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ وہی اس کے وقت پر اس کو ظاہر کرے گا۔ آسمان و زمین اس سے بوجھل ہیں ، وہ تم پر بس اچانک ہی آ دھمکے گی۔ وہ تم سے پوچھتے ہیں گویا تم اس کی تحقیق کیے بیٹھے ہو۔ کہہ دو، اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ۔‘‘ (اعراف 187:7)
’’بے شک قیامت شدنی ہے ۔ میں اس کو چھپائے ہی رکھوں گا تا کہ ہر جان کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے ۔ ‘‘ (طہ 15:20)
’’اور قیامت کے علم کا معاملہ صرف اللہ ہی سے متعلق ہے۔ اور کوئی میوہ اپنے غلاف سے باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی اور نہ جنتی ہے مگر اسی کے علم سے۔ اور جس دن ان کو پکارے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں تو کہیں گے کہ ہم نے تجھ سے عرض کر دیا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا گواہ نہیں رہا۔‘‘ (حم سجدہ 47:41)
’’یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے جب یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑ یں ۔ اور قیامت کا شدنی وعدہ قریب آ گیا ہے تو ناگہاں ان لوگوں کی نگاہیں ٹنگی رہ جائیں گی جنہوں نے اس کا انکار کیا ہے ۔ وہ پکاریں گے ، ہائے ہماری بد بختی! ہم اس سے غفلت میں پڑ ے رہے ۔ بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے !‘‘ (الانبیائ21: 97-96)
’’یا ہم تم کو اس کا کوئی حصہ دکھا دیں گے جس کا ان سے وعدہ کر رہے ہیں یا تمہیں وفات دیں گے پس ان کی واپسی ہماری طرف ہو گی، پھر اللہ گواہ ہے اس چیز پر جو وہ کر رہے ہیں ۔‘‘ (یونس46:10)
’’پس ثابت قدم رہو، بے شک اللہ کا وعدہ شدنی ہے ۔ یا تو ہم تم کو اس کا کچھ حصہ، جس کی ان کو وعید سنا رہے ہو، دکھا دیں گے یا تم کو وفات دیں گے پس ان کی واپسی ہماری طرف ہو گی۔‘‘ (المومن 77:40)
’’ان سے کہہ دو کہ جو لوگ گمراہی میں پڑے رہتے ہیں تو خدائے رحمان کی شان یہی ہے کہ ان کی رسی اچھی طرح دراز کرے۔ یہاں تک کہ جب وہ دیکھ لیں گے اس چیز کو جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے خواہ عذاب دنیا یا قیامت۔ ۔ ۔ ان کو پتہ چل جائے گا کہ درجے کے اعتبار سے کون بدتر اور حمائتیوں کے اعتبار سے کون کمزور تر ہے ۔‘‘ (مریم 75:19)