اچھا کیسے لکھیں؟ عظمیٰ امبرین
بعض لوگوں کو فطرت پیدائشی طور پر یہ فن عطا کرتی ہے کہ وہ لکھنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ لکھ سکتا ہے اور وہ اس میدان میں طبع آزمائی بھی کرتا رہتا ہے اس کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنی لکھنے کی صلاحیت میں بہتری کیسے لاسکتا ہے۔ اگر اسے لکھنے کے لیے تردد نہیں کرنا پڑتا، وہ ارادہ کرتا ہے اور روانی سے لکھنے لگتا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ اس صورت میں اسے نہ صرف لکھنا چاہیے بلکہ اس صلاحیت میں بہتری اور مہارت پیدا کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ وہ لکھنے والوں کی صف میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہو۔ اس سلسلے میں مرحلہ وار چند ٹپس مصنفین کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ پہلے مرحلے پر اپنے ذوق کو دیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کے لیے لکھنا فطری امر ہے اور آپ پر تحریر گویا خود اترتی ہے، الفاظ، انداز تراکیب اور من جملہ لوازمات ساتھ لاتی ہے۔ تو بہت اچھی بات ہے۔ لکھنے کا عمل جاری رکھیں۔ بس شروع شروع میں اسے ترتیب دینا پڑے گا کچھ عرصے کے بعد ترتیب بھی خود بخود بنتی چلی جاتی ہے اور آپ پر طاری ہوتی چلی جاتی ہے۔ صلاحیتوں کا فرق بہرحال اس پر اثرانداز ہوتا ہے کہ کچھ لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو اس کیفیت سے گزرنے کی بجائے کسی مضمون کو سلسلہ وار سوچتے ہیں اور پھر خاص ترتیب سے لکھتے ہیں جبکہ کچھ ارادہ کرتے ہیں اور روانی سے لکھنے لگتے ہیں۔
زبردستی مصنف بننے کی کوشش کسی کو نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا شخص کوئی ایک آدھ تحریر لکھ بھی ڈالے، تب بھی بہت مستقل بنیادوں پر زیادہ اچھی چیزیں نہیں لکھ سکے گا۔ جس میں لکھنے کی صلاحیت ہے یعنی جو لکھتے ہوئے اچھا محسوس کرے، اسے لکھنا آسان لگے، اسے لکھنا چاہیے۔
دوسرا یہ کہ مطالعہ کرتے رہنا لکھنے کی بنیاد بھی ہے اور تکمیل بھی۔ آج کل اکثر لوگ لکھنے کے شوقین ہیں لیکن پڑھنے کی معمولی زحمت بھی گواراہ نہیں کرتے۔ یہ ایک بالکل ہی مصنوعی عمل ہے کہ آپ پڑھیں نہیں اور صرف لکھتے رہیں۔ اچھا لکھنے کے لیے بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ نے پڑھ رکھا ہو، اچھا پڑھ رکھا ہو اور بہت زیادہ پڑھ رکھا ہو۔ سو اصول یہ ہے کہ اگر پڑھنے کا ذوق نہیں ہے تو نہ لکھیں اور اگر لکھنے کا ذوق و شوق ہے تو بہت پڑھیں۔
تیسری بات یہ کہ اگر لکھنے کا شوق ہے اور اس کی قدرتی صلاحیت بھی ہے تو اس راہ کے ضروری لوازم سے آراستہ ہونے کا اہتمام کیجیے۔ مثال کے طور پر ورڈ میں لکھتے ہوئے جمیل نوری نستعلیق فانٹ اور فانٹ سائز 16 بہتر رہتا ہے نیز آپ کو بنیادی گرامر آنی چاہیے۔ رموز اوقاف (punctuation) سے واقفیت ہونی چاہیے۔ اکثر لوگ مصنف بن جاتے ہیں اور ان کے مضمون میں ایک نشان وقفہ (Comma) یا ختمہ (Full stop) بھی نہیں ہوتا۔ لازمی ہے کہ یہ بنیادی چیزیں سیکھنی چاہئیں کہ فجائیہ نشان (Exclamation mark) کہاں لگتا ہے، نشان وقفہ (Comma) کہاں لگتا ہے، پیراگرافنگ (Paragraphing) کیسے ہوتی ہے، مضمون کی ابتدا کیسے ہوتی ہے، اختتام کیسے ہوتا ہے۔ مضمون کا ڈھانچہ کیسے لکھا جاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ گرامر کے اصولوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ پھر یہ کہ ذخیرہ الفاظ وسیع ہونا چاہیے۔ یہ ظاہر ہے کہ مطالعہ سے وسیع ہو گا۔ الفاظ کے معنی معلوم ہونا چاہئیں۔ اس کے لیے ایک اچھی لغت پاس میں ہونی چاہیے۔ محاورے اور تراکیب معلوم ہونے چاہئیں۔ شعر و ادب کا بھی ذوق ہونا چاہیے کیونکہ ذخیرہ الفاظ بہت حد تک وہیں سے آتا ہے۔
لکھنے کی استعداد کو بہتر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے تخیل کو تحریر میں بدلنے کا ملکہ پیدا کریں۔ اس کے لیے پہلے تو اس کی عادت ڈالیں کہ جیسے ہی کوئی عمدہ خیال پیدا ہو، کوئی نکتہ ذہن میں آئے اسے فوراً نوٹ کرلیں۔ چاہے اٹھیں ہوں، بیٹھے ہوں، لیٹے ہوں آپ کو یہ کام کرنا ہوگا۔ ورنہ بہت اچھے اچھے خیالات جنہیں دوسروں تک پہنچنا چاہیے ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ اس لیے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
اگر کوئی خیال ذہن میں پیدا نہ ہو کہ ہر شخص کا تخیل اتنا زرخیز نہیں ہوتا تو پھر لکھنے کی مشق کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی اچھے مصنف نے جو مضمون لکھا ہے، آپ اس کو دوبارہ لکھیے۔ پھر تقابل کریں کہ میں نے اسے کیسے لکھا ہے اور مصنف نے کیسے لکھا ہے۔ یا پھر یہ کیجیے کہ اپنے احساسات کو قلمبند کیجیے۔ ڈائری لکھنے کی عادت ڈالیں۔ یا پھر منظر نگاری کیجیے کہ صبح کا وقت کیسا ہوتا ہے یا کسی جگہ گئے تھے تو وہاں کیا دیکھا۔ ان سب چیزوں سے انسان کو لکھنا آتا ہے۔
یہ زمانہ لمبی لمبی تحریروں کا نہیں ہے۔ کوشش کیجیے کہ کم سے کم الفاظ میں اپنا مدعا بیان کر دیجیے۔ جب مضمون لکھ لیں تو ہمیشہ اس پر نظر ثانی کی عادت ڈالیں۔ اپنی غلطیوں کو نوٹ کریں۔ ہوسکے تو ایک دو لوگوں سے پڑھوا کر فیڈ بیک لیں۔ پھر اسے اشاعت کے لیے بھیجئے۔
جب لکھیں تو اس کا اہتمام کریں کہ جملے چھوٹے ہوں۔ سادہ ہوں۔ مشکل اور پیچیدہ زبان استعمال نہ کریں۔ سادہ زبان پڑھنے میں آسان ہوتی ہے۔ وہ پرانا زمانہ تھا جب مرزا رجب علی بیگ کی زبان لکھی جاتی تھی۔ میر امن نے اس زبان کو بدل دیا۔ پھر اردو ادب کے جو عناصر خمسہ تھے، انھوں نے اس کو بہت آگے بڑھا دیا۔ سرسید، آزاد، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، حالی جیسے لوگوں کو پڑھنا چاہیے ان لوگوں نے اردو زبان کو اردو بنایا ہے۔ جو دور جدید کے بڑے لوگ ہیں ان کو پڑھنا چاہیے۔
یہ لکھنے کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں ہیں۔ انشا اللہ امید ہے کہ جب آپ اس پہلو پر محنت کریں گی تو اچھی چیزیں لکھنے لگیں گی۔ لیکن کبھی مصنف بننے کا شوق نہ رکھیں۔ اس احساس ذمہ داری کے ساتھ لکھیں کہ آپ کے پاس واقعی کوئی پیغام ہے جو آپ کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ لکھا ہوا لفظ بہت دور تک جاتا ہے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیے اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ لکھیے۔ بیشتر لوگ لکھتے ہیں اور تعریفیں ہونے پر خوش ہوجاتے ہیں۔ مگر بارہا ایسے لوگوں کی اخلاقی شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہمیشہ اپنے اخلاقی وجود کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔