دہشت گردی: مسئلے کا حل کیا ہے؟ ابویحییٰ
کراچی، لاہور اور کابل میں دہشت گردی کے واقعات کے ایک ساتھ رونما ہونے پر دہشت گردی کے اسباب ایک دفعہ پھر زیر بحث آ گئے ہیں۔ اس طرح کے واقعات گرچہ بہت المناک ہوتے ہیں اور خاص کر ان میں نقد جاں ہارنے والوں اور ان کے لواحقین کے لیے تو یہ قیامت صغریٰ کا منظر ہوتا ہے، لیکن ان شہداء کی اس قربانی سے اگر دہشت گردی کے ناسور کے اسباب پر ایک عمومی اتفاق ہوجائے تو نجانے مزید کتنی ہی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
دہشت گردی کی تین بنیادی سطحیں ہیں۔ ایک مسلح بغاوت دوسری شہری علاقوں میں کی جانے والی دہشت گردی اور تیسرا انتہا پسندی کی وہ سوچ جہاں سے ان دونوں کو غذا ملتی ہے۔ ہمارا پہلا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسلح بغاوت اور دہشت گردی کے واقعات کو اصل مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے ۔ مگر ان کے پیچھے کارفرما انتہا پسندی کی سوچ کو ہمارے ادارے، حکومت اورمعاشرہ تینوں بالواسطہ اور بلاواسطہ ، علانیہ اور غیر علانیہ حمایت مہیا کرتے ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کسی درخت کے پتے جھاڑتے رہیں، شاخیں تراشتے رہیں، مگر جڑوں میں پانی ڈالتے رہیں۔ اس عمل کا جو نتیجہ کسی باغبان کے لیے نکل سکتا ہے، وہی نتیجہ ہمارے لیے نکلتا ہے۔ یعنی پوری ریاستی قوت کو استعمال کر کے بھی ہم دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کرسکے۔ چنانچہ وقفے وقفے سے دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا رہتا ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیوں دہشت گردی کے پیچھے کارفرما انتہا پسندی کی بالواسطہ اور بلا واسطہ حمایت کرتے ہیں؟ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ سیاسی ہے ۔ اس خطے میں ہمارے کچھ سیاسی مفادات ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کے لیے جو کچھ ہماری عملی ضروریات ہیں، انتہا پسندی ان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔
اس کی ایک دوسری وجہ نظریاتی ہے۔ دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ اسلام سے محبت اس خطے کے لوگوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ چنانچہ دہشت گردوں کا مقدمہ بالکل سادہ ہوتا جس سے ہم اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں پاتے۔ یعنی اسلام کو ریاست کی سطح پر نافذ ہونا چاہیے ۔ ہمارے حکمران اسلام کے بجائے مغرب کے ایجنٹ ہیں ۔ اس لیے وہ کبھی یہاں اسلام کو نہیں آنے دیں گے۔ جس کے بعد ان حکمرانوں سے جنگ کر کے نجات حاصل کرنا خود ایک مذہبی فریضہ ہے۔ چنانچہ جو لوگ خود کش حملے کر کے اپنی جانیں دیتے ہیں وہ اپنی دانست میں جہاد کر کے جنت کے حصول کی جدو جہد کرتے ہیں۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں بیشتر مذہبی طبقات پچھلے برسوں میں کسی نہ کسی طرح دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ضرب عضب اور اے پی ایس کے واقعے کے بعد گرچہ دہشت گردی کی علانیہ حمایت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، تاہم ان کے اصل نقطہ نظر میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ جڑوں کو پانی ملتا رہتا ہے اور دہشت گردی کے درخت سے ہر کچھ عرصے میں کوئی نہ کوئی شاخ پھوٹ کر خاندان در خاندان اجاڑ دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس مسئلے کا ابھی تک ایک ہی حل سامنے آیا ہے۔ وہ یہ کہ ہماری سیاسی اورفوجی قیادت کو اپنی سیاسی ترجیحات بدلنے پر آمادہ کیا جائے۔ جبکہ مذہبی قیادت کے نظریے یا بیانیے کی غلطی واضح کی جائے۔ مگر اس حوالے سے جو کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے ، اس کے جواب میں اس سے کہیں زیادہ لکھا اور بول دیا جاتا ہے۔ اب استدلال تو ہر شخص کو سمجھ میں نہیں آتا اس لیے عام لوگ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ غلطی پر کون ہے۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کا ایک دوسرا حل وہ ہے جو خود قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ وہ حل یہ ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت اگراپنا کوئی ذہن بنا چکی ہے تو ضرور بنائے، مگر اس بات کو یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حق کسی کو نہیں دیا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی مسلمہ اخلاقی قدر کو پامال کرے۔ کسی انسان کی جان، مال اور عزت وہ بنیادی مسلمہ انسانی قدر ہے جس کی پامالی اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کے مترادف ہے۔ عملاً اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان سیاسی اور نظری مقاصد کے حصول کے لیے یہ بنیادی انسانی قدر بری طرح پامال ہورہی ہے۔ چنانچہ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت پر یہ فرض ہو چکا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو چاہے درست سمجھتے ہوں، ان سے فوراً پیچھے ہٹ جائیں۔ وہ ہٹنے کو تیار نہیں تو معاشرے پر یہ فرض ہے کہ پھر ان کی مالی، عملی، نظریاتی اور فکری حمایت سے فوراً باز آجائیں۔ کیونکہ یہ بات سمجھنا ان کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔
لوگ یہ اگر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے تو قرآن مجید اور انبیاء علیھم السلام کی تاریخ اور ان کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ پھر خدا کے غضب کو بھڑکانے کے جرم میں قومی سطح پر انتہائی خوفناک تباہی آتی ہے۔ اس تباہی میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کا مارے جانا، جان، مال اور آبرو کا برباد ہونا ایک معمولی بات ہے۔
پاکستان کی صورتحال اس لیے بہت خوفناک ہے کہ یہاں اہل علم نے اس پوری بات کو قوم کو سمجھانے کی بار بار کوشش کی ہے۔ مگر سمجھانے والوں کے حصے میں قتل، جلاوطنی، بے گھری، الزام و بہتان کی مہموں کے سوا کچھ بھی نہیں آیا ہے۔ امت مسلمہ کے بارے میں پچھلے چار ہزار برسوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ غیرمتبدل قانون ہے کہ اس کے بعد مکمل قومی تباہی آیا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جرم میں نہ یہودیوں کو معاف کیا تھا نہ دور وسطیٰ کے مسلمانوں کو۔ ہمارے لیے بھی صحیفوں میں کوئی براءت نہیں لکھی ہوئی کہ ہم اس جرم کے ارتکاب کے بعد چھوڑ دیے جائیں گے۔
اس لیے مسلمہ اخلاقیات کو پامال کرنے والے اور ان کی حمایت کرنے والے۔ خاموش رہ کر اپنی مذہبی دکانیں چلانے والے اور معاشرے کے تمام طبقات سوچ لیں۔ انھیں یہ کھلواڑ بہت مہنگا پڑے گا۔ زیادہ دیر نہیں گزرے گی کہ ان کا واسطہ کمزور انسانوں کے بجائے عالم کے پروردگار سے پڑے گا۔ اس رب عظیم کا غضب کوئی بے خوف رہنے کی چیز نہیں ہے۔ کاش خدا کے نام پر کھڑے لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں۔