غزل پروین سلطانہ حناؔ
پروین سلطانہ حناؔ
غزل
سلسلے بے کلی سے ملتے ہیں
دوست جب بے رخی سے ملتے ہیں
بے حقیقت نہ جانیے ان کو
غم بھی تو زندگی سے ملتے ہیں
لوحِ جاں پر جو جگمگاتے ہیں
زخم وہ آگہی سے ملتے ہیں
ہو مقدّر میں نارسائی تو
کب ستارے کسی سے ملتے ہیں
ہم میں طاقت نہیں جدائی کی
اس لیے کم کسی سے ملتے ہیں
دیکھ کر دلکشی گلابوں کی
یوں لگا آپ ہی سے ملتے ہیں
وہ ہی محور ہے میری سوچوں کا
دائِرے سب اسی سے ملتے ہیں
مشکلوں سے نجات کے رستے
سب اسی کی گلی سے ملتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔