مضامین قرآن (40) دعوت کے ردوقبول کے نتائج ۔ ابو یحییٰ
دعوت کے ردوقبول کے نتائج
قرآن مجید کے مضامین کے بیان میں جو ترتیب ہم نے قائم کی تھی اس میں سب سے پہلے دعوت دین کے دلائل پر بات کی گئی تھی۔ اس میں ہم نے یہ بتایا تھا کہ قرآن مجید میں میں وجود باری تعالیٰ، آخرت، توحید اورنبوت کے کیا دلائل دیے گئے ہیں۔ مضامین قرآن میں ان دلائل کے بعد ہم نے دوسرا عنوان ’’دعوت اور اس کے ردوقبول کے نتائج ‘‘ کا قائم کیا تھا۔ یہ قرآن کا بنیادی موضوع ہے اور یہی سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اسی کو عرف عام میں عقائد یا ایمانیات کہتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے اصل ترتیب میں اسے سب سے پہلے رکھا تھا، تاہم عام طور پر لوگ قرآن مجید کے دلائل سے بالعموم واقف نہیں اور نہ اس پر بہت زیادہ کام ہوا ہے، اسی لیے ہم نے دلائل کو پہلے بیان کر دیا تھا۔ جس کے بعد ہم نے دعوت اور اس کے ردوقبول کے نتائج پر گفتگو شروع کی۔ اس میں پہلے ہم نے دین کی بنیادی دعوت کے عنوان سے دعوت عبادت رب، شرک کی تردید اور اللہ کی ذات، صفات اورسنن جیسے اہم موضوعات پر قرآن مجید کا نقطہ نظر سامنے لائے تھے۔ اس کے بعد دعوت کے ابلاغ کے عنوان کے تحت ہم فطرت، نبوت و رسالت، ملائکہ اور صحف سماوی کے موضوعات کو زیر بحث لائے تھے۔
منصوبہ الٰہی اور انذار و تبشیر
اس ضمن کا تیسرا اورآخری موضوع ’’دعوت کے رد و قبول کے نتائج ‘‘ کا ہے۔ انبیا علیھم السلام ایک طرف لوگوں کو خدا پر ایمان، تنہا اس کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگوں کو اس دنیا میں خدا کے منصوبے سے آگاہ کرتے ہیں کہ اس نے یہ دنیا عارضی طور پر اور امتحان کے لیے بنائی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون ہے جو بن دیکھے خدائے رحمان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا اور اپنی محبت، عبادت، اطاعت اور وفادادی کو اس کے لیے خاص کر دیتا ہے اور کون ہے جو اس اس عارضی دنیا پر ریجھتے ہوئے خدا کا انکار ، اس کے ساتھ شرک ، تکبر اور غفلت کی وجہ سے دعوت حق کا انکار اور بندگان خدا پر ظلم کر رہا ہے۔ انبیا علھیم السلام بتاتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب قیامت کا زلزلہ اس عارضی دنیا کو تہہ وبالا کر دے گا۔ پھر ایک نئی دنیا شروع ہو گی۔ اس دنیا میں صرف دو انجام انسانوں کے منتظر ہیں ۔ ایک جنت کی شکل میں ابدی طور پر خدا کی نعمت و عطا کا مقام اور دوسرا جہنم کی شکل میں اس کی پکڑ اور سزا کا انجام۔ جو لوگ دعوت حق کو مان کر ایمان و اخلاق کے تقاضے نبھائیں گے ان کا بدلہ ابدی جنت ہے۔ جبکہ منکرین، متکبرین اور ظالموں کا انجام جہنم ہے ۔
انبیا کے اس کام کو قرآن مجید کی اصطلاح میں انذار و تبشیر کہا جا سکتا ہے۔ انذار کا لفظی مطلب خبردار کرنا ہے۔ تاہم قرآن مجید میں اس کا مطلب خدا کی پکڑ اور جہنم کے عذاب سے خبردار کرنا ہے۔ جبکہ تبشیر کا مطلب بشارت دینا یا خوش خبردی دینا ہے۔ یہ خوشخبری خدا کے اس انعام کی ہوتی ہے جو خدا ابدی جنت کی شکل میں اپنے وفاداروں کو دے گا۔
ہم نے اوپر رسول اور نبی کی بحث میں یہ واضح کیا تھا کہ رسولوں کے مخاطبین میں سے جو کفر کرتے ہیں، ان پر دنیا ہی میں عذاب آ جاتا ہے۔ اس عذاب سے صرف ان کے ماننے والوں کو بچایا جاتا ہے اور ان کو زمین کا وارث بنا دیا جاتا ہے۔ یہ گویا اسی دنیا میں اس سزا و جزا کا ایک عملی نمونہ اور ثبوت ہوتا ہے جو آنے والی دنیا میں قائم ہونے جا رہی ہے۔ رسول اپنی قوموں کو جب اپنی دعوت کے رد کرنے کے انجام سے تنبیہ یا انذار کرتے ہیں تو اس میں جہنم کے عذاب کے ساتھ دنیا کا یہ عذاب بھی شامل ہوتا ہے۔ جبکہ خاص اپنے مخاطبین کے لیے ان کی بشارت جنت کے ساتھ دنیوی پہلو سے اس بات کی بھی ہوتی ہے کہ ان پر ایمان لانے والے ہی اس عذاب سے بچائے جائیں گے اور وہی زمین کے وارث بنائے جائیں گے۔
چنانچہ رسولوں کی اقوام کی یہ سزا و جزا رسولوں کی صداقت اور اخروی انذار و بشارت کا وہ ثبوت ہوتی ہے جس سے بڑا کوئی ثبوت اس دنیا میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر ہم نے دلائل پر گفتگو کرتے ہوئے تفصیل سے بات کی ہے ۔ تاہم باقی انسانوں کے لیے یہ دنیا دارالامتحان ہی ہے اور ان کی سزا وجزا کا اصل وقت ان کی موت کے بعدآنے والی دنیا میں شروع ہو گا۔
انذارو تبشیر کی اہمیت
یہ انذار و تبشیر دعوت عبادت رب کے بعد نبیوں کا سب سے اہم اور بنیادی کام ہے۔ یہ انذارو تبشیر ایک طرف تو دین کی بنیادی دعوت کا ایک لازمی جز ہے کہ دین دراصل اُسی آنے والی دنیا کے تعارف کے لیے آیا ہے جہاں خدا وند دوعالم غیب کا نقاب اتار کر اپنی ذات و صفات کا حقیقی ظہور کرے گا۔ دوسری طرف دلائل کی طرح یہ انذار وتبشیر بھی ایک بندہ مومن کو ایمان واخلاق کی مشکل شاہراہ کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور ایک منکر کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ اگر باز نہ آیا تو آنے والی دنیا میں اس کو بدترین انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔
یہ کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا اہم ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی عالمگیریت کو واضح کیا گیا ہے وہاں انذار و تبشیر کے الفاظ ہی استعمال کیے گئے ہیں ۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو لوگ خود کو تفقہ فی الدین کے بعد خدمت دین کے لیے وقف کر دیں ، ان کی ذمہ داری بھی یہی بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی قوم کو انذار کریں ۔
قرآن مجید موت کے بعد سزاوجزا کے ان احوال و مقامات کو جن عنوانات سے زیر بحث لاتا ہے وہ درج ذیل ہیں ۔
ا) موت اور برزخ
۲) احوال قیامت
۳) سزا جزا کے مقامات: حشر ، جنت ، جہنم
ان عنوانات پر ایک ایک کر کے تفصیلی گفتگو انشاء اللہ العزیز آگے کی جائے گی۔
قرآنی بیانات
’’ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم پورا پورا اجر تو بس قیامت ہی کے دن پاؤ گے ۔ پس جو دوزخ سے بچایا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب رہا اور یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سودا ہے ۔‘‘ (ال عمران 185:3)
اس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے ۔ اور وہ غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی، (ملک 2:67)
ہر جان کو موت کا مزہ لازماً چکھنا ہے ۔ اور ہم تم لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں پرکھنے کے لیے اور ہماری ہی طرف تمہاری واپسی ہونی ہے۔ ( الانبیا 35:21)
’’لوگ ایک ہی امت بنائے گئے، ( انہوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے جو خوشخبری سناتے اور خبردار کرتے ہوئے آئے ۔‘‘ (البقرہ 213:2)
’’ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا ہے، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر، اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ آیا ہو۔‘‘
اور ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جان رہے ہیں ، (سبا 28:34)
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے (فرقان 1:25)
’’یہ تو نہ تھا کہ سب ہی مسلمان اٹھتے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ کچھ لوگ نکلتے تا کہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو بھی آگاہ (انذار) کرتے جب کہ وہ ان کی طرف لوٹتے کہ وہ بھی احتیاط کرنے والے بنتے ۔‘‘ (التوبہ 122:9)