اہل پاکستان کا ماتم ۔ ابو یحییٰ
عید کے دن دہشت گردوں نے ایک سیاسی لیڈر پر حملہ کیا جس میں وہ تو بچ گئے لیکن ایک گارڈ کے علاوہ ان سے عید ملنے والا چودہ سالہ بچہ نقد جان ہار گیا۔ یہ اسی حوالے سے لکھا گیا ایک آرٹیکل ہے۔
چار گلیاں چھوڑ کر بھی کسی خاندان کا قتل ہوجائے تو دکھ ہونا فطری چیز ہے۔ اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب گھر میں پڑی لاش کو چھوڑ کر چار گلی دور کے قتل پر بین کیا جاتا ہے۔ اہل برما کا ماتم ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ اہل پاکستان کا ماتم کب ہوگا؟
اہل تشیع اور احمدیوں کے ماتم کی توقع نہ سہی کہ ہماری مذہبی فکر انہیں کافر سمجھتی ہے، چودہ سالہ معصوم ارسل ہی کا ماتم کرلیتے۔ شاید وہ بوجھ کچھ کم ہوجاتا جو روزِقیامت اٹھانا ہے۔
چودہ سال کی عمر ایسی نہیں ہوتی کہ سرراہ عید کے دن عید ملتے ہوئے گولی مار دی جائے۔ مگر جب یہ گولی دین و شریعت کا نام لینے والے مارتے ہیں تو پھر ہر جگہ چپ چھا جاتی ہے۔ ایسے میں کیا کہیں اور کس سے کہیں۔ لیکن بولنا تو ہوگا کہ ایک دن خدا کو منہ دکھانا ہے۔
اس لیے چاہے برا لگے مگر سنیے کہ روزِ قیامت اگر برمی مسلمانوں کے قاتل جہنم رسید کیے جائیں گے تو بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں کا انجام بھی جدا نہیں ہوگا۔ قتل کرنے والے، قتل پر آمادہ کرنے والے، قاتلوں کو اگر مگر کی ڈھال فراہم کرنے والے، جہاد کے مقدس نام پر بے خبر، سویلین اور غیرمسلح لوگوں کے خلاف حملوں کی توجیہ و تاویل کرنے والے اور ہاں ایسے قتل پر خاموش رہنے والے؛ سب پروردگار عالم کے غضب سے اپنا حصہ پا کر رہیں گے۔
خدا کا خوف اگر کسی میں باقی ہے تو اہل برما سے قبل اہل پاکستان کے قتل کا تدارک ہونا چاہیے۔ اس نظریے کوختم ہونا چاہیے جو غیرمقاتلین کے قتل کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ہر وہ فرد، گروہ یا جماعت جس نے اس نظریے کی آبیاری میں کوئی حصہ ڈالا، اسے اب اس نظریے کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ یہی ان کے لیے توبہ کا واحد راستہ ہے۔ جو شخص اس جہاد میں شریک نہیں ہوا، دنیا کی کوئی طاقت اسے روزِ قیامت خدا کے قہر سے نہیں بچا سکتی۔