وہ سانحات جن سے بچا جاسکتا ہے ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں کراچی میں ہاکس بے کے ساحل پر ایک ہی خاندان کے بارہ افراد کے ڈوب جانے کا اندوہناک سانحہ پیش آیا۔ اس موقع پر موجود کسی شخص نے ڈوبتے ہوئے لوگوں کی وڈیو بنا کر فیس بک پر ڈال دی۔ ڈوبنے والوں کی بے بسی اور ان کے گھر والوں کی چیخ و پکار کا منظر اتنا اندوہناک تھا کہ دل درد سے بھرگیا۔
یہ سانحہ جتنا اندوہناک ہے اس سے کہیں زیادہ اندوہناک یہ حقیقت ہے کہ یہ اس نوعیت کا نہ کوئی پہلا سانحہ ہے اور نہ آخری ہو گا۔ اس طرح کے سانحات کی بنیادی وجہ تو حکومت اور عوام دونوں کی غفلت ہے۔ مگرسردست اس موضوع کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم ایک بالکل سادہ چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جسے ملحوظ رکھا جائے تو ایسے سانحات پیش نہیں آئیں گے۔
عام طور پر جب ایک شخص ڈوبتا ہے تو لازماً خاندان کا کوئی دوسرا شخص بچانے جاتا ہے ۔ ایسے میں لوگ اگر اپنے ساتھ بیس تیس میٹر طویل ایک رسی لے کر جائیں تو یہ بچانے والا کبھی نہیں ڈوب سکتا۔ اس کے لیے بچانے والا اپنی کمر کے گرد رسی باندھ کر سمندر میں جائے۔ اس رسی کا دوسرا سرا ساحل پر کھڑے لوگوں کے پاس ہو تو ڈوبنے والا بچے نہ بچے ، یہ دوسرا آدمی کبھی نہیں ڈوبے گا۔ کیونکہ اگر پانی کے سامنے اس کی مزاحمت ختم ہوئی تو ساحل پر کھڑے لوگ اسے رسی کی مدد سے فوراً واپس کھینچ لیں گے۔ بلکہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ شخص پہلے ڈوبنے والے شخص کو بھی بچالے گا۔
یہ سادہ سی بات اگر تعلیمی نصاب میں شامل کر دی جائے تو رفتہ رفتہ یہ چیز لوگوں کی عادت میں شامل ہوجائے گی۔ جس کے بعد اس درجہ سنگین واقعات یقیناً پیش نہیں آئیں گے۔ ایک چھوٹی سی چیز کئی خاندانوں کو اجڑنے سے بچالے گی۔