مثبت سوچیے، خوش رہیے ۔ عظمیٰ عنبرین
ہر انسان چاہتا ہے کہ مجھے خوشیوں بھری، پرسکون زندگی مل جائے، مشکلات حل ہوجائیں۔ کسی کی بھی زندگی کے صفحات کھول کر دیکھ لیں، وہ پریشانیوں میں گھرا ہوا نظر آئے گا۔ لوگوں کی زندگیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک پریشانیوں کی داستانیں بھری ہوتی ہیں۔ شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جس کی زندگی میں صرف خوشیاں ہوں اور وہ کبھی پریشانی و تکلیف کا شکار نہ ہوا ہو، کیونکہ دکھ سکھ ہوں یا خوشی و غمی، یہ انسان کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں شامل ہوتے ہیں۔ کسی کامیاب ترین یا ’’بڑے‘‘ کی زندگی میں جھانک کر دیکھ لیں، وہ بھی اس چیز سے محفوظ نظر نہیں آئیں گے۔ البتہ اس صورتحال میں کرنے کا جو کام ہوتا ہے وہ یہ ہونا چاہیے کہ کسی قسم کی منفی کیفیات مستقل ہم پر طاری نہ ہوسکیں۔ ہمیں خود کو اس بات کے لیے تیار رکھنا چاہیے کہ تمام زندگی، کسی بھی لمحہ، کوئی بھی کیفیت ہمارا استقبال کرسکتی ہے۔ یہ کیفیات زندگی کی علامت ہیں، اگر مسائل نہ ہوتے تو آسودگی کی پہچان کیسے ہوتی۔
ان کا حل:
ماضی کو ہم بدل نہیں سکتے اور مستقبل کے حالات ہم انسانوں کے قبضٔہ قدرت میں نہیں ہوتے۔ اس حقیقت کو اگر سمجھ لیا جائے تو نہ ماضی کے تجربات مایوس کریں گے اور نہ ہی مستقبل کی فکر پریشان کرے گی۔ نامناسب حالات درست کرنے کا یقینی فارمولا اللہ پر کامل بھروسہ ہے، اس سے تمام تلخیاں اور تفکرات دور ہوسکتے ہیں اور دل بھی مطمئن رہتا ہے۔ نیز چند اصولوں پر عمل کر کے ان کے مثبت اثرات آپ خود محسوس کریں گے؛
1) غم کو قریب نہ آنے دیں: جب ہم غم و فکر میں مسلسل مبتلا رہتے ہیں تو مرض کو خود ہی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ غم اور ذہنی دباؤ کا جسمانی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کیفیت میں افاقہ کے لیے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھ کر، آنکھیں بند کر کے خود کو پرسکون حالت میں تصور کریں، آہستہ آہستہ اور گہری سانس لیں۔ رنج و فکر کے تمام خیالات کو ذہن سے جھٹک دیں۔
2) دوسروں کی غلطیوں کو معاف کریں: ہماری بہت ساری معاشرتی خرابیوں کا باعث وہ کینہ اور بدگمانی ہوتی ہے جس میں ہم مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کے جتنے برے اثرات ہمارے اپنے قلب و دماغ پر پڑتے ہیں دیگر افراد پر نہیں پڑتے۔
درگزر اور محبت ایک ایسی طاقت ہے جس کے مثبت اثرات پوری کائنات میں محسوس ہوتے ہیں۔ اس لیے تکلیف دہ یادداشتوں کو دل و دماغ پر سوار رکھنے کے بجائے دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیے۔ اس سے آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔
3) منفی رویوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے تلخ رویے اور باتیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔ مختصر سی زندگی کو رنجیدہ ہو کر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں پر قطعی کوئی توجہ نہ دی جائے اور اس کے جواب میں خاموشی اختیار کی جائے۔ اس طرزعمل سے آپ بہت سے لڑائی جھگڑوں اور ان کے مضر اثرات سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
4) اپنی ایک ڈائری بنائیں: اپنی ایک ڈائری بنانے سے ہم منظم انداز میں تمام کاموں کو ان کی اہمیت کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ آج کل ہر انسان بے شمار مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے کاموں کا ایک ہجوم ذہن میں ہوتا ہے جنہیں مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے میں کچھ باتوں کا ذہن سے نکل جانا کچھ ناممکن نہیں ۔ بعض اوقات یہ صورتحال تلخیوں کا باعث بھی بن جاتی ہے خصوصاً جب کسی سے کوئی وعدہ کر رکھا ہو اور دیگر کاموں میں مصروف ہو کر وعدہ پورا کرنا بھول جائیں اور لاپرواہی کا ٹھپہ لگ جائے۔ کبھی بچوں کی فیس یا اسکول کے دیگر معاملات نمٹانے ہوں یا بلوں کی ادائیگی کرنی ہو یا پھر کسی سے کوئی ضروری ملاقات طے کر رکھی ہو، ہر کام کو اس کی اہمیت کے مطابق سرانجام دینے کے لیے ڈائری بنا لینا بہت مفید ہے۔
5) زندگی کا مقصد متعین کریں: اگرآپ صرف کھانے پینے، آرام کرنے اور پرتعیش زندگی گزارنے کو اپنا نصب العین بنائیں گے تو خوشحال اور پرسکون زندگی کے حصول میں ناکام ہوجائیں گے۔ اپنے لیے اپنی ذات سے کہیں بلند مقاصد متعین کیجیے، اپنی خدمات سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیے، یقین کیجیے خلوص نیت کے ساتھ دوسروں کے کام آنے سے جو قلبی سکون حاصل ہوتا ہے اس کا کوئی مول نہیں اور وہ آپ کو اللہ سے بھی جوڑ دیتا ہے۔ کسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تو قرآن کریم کی اس آیت پر کاربند ہوجائیں جس میں کہا گیا ہے ’’ہم تو تمہیں صرف اللہ کے لیے کھانا کھلاتے ہیں، تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے‘‘۔ بس یہ سمجھ لیں کہ یہ معاملہ آپ کا اللہ کے ساتھ ہے، آپ دیکھیں گے کہ یہ چیز آپ کی زندگی کا حصہ بنتی چلی جائے گی۔ اپنی زندگی کا حساب اس بات سے نہیں کریں کہ اب تک کیا کیا ہے بلکہ اس چیز سے کریں کہ آپ کیا مفید کام کرسکتے تھے جو آپ نے ابھی تک نہیں کیا۔
6) مثبت سوچیے اور خوش رہیے: ہمارا ذہن اتنی طاقت رکھتا ہے کہ مثبت و خوشگوار خیالات کے ذریعے نفسیاتی امراض پر قابو پا کر خوش رہا جاسکتا ہے۔
اپنے ذہن پر توجہ دیں، منفی جذبات سے بچنے کے لیے مثبت چیزوں کے بارے میں سوچیں، سب کے خیرخواہ بنیں اور ہمیشہ اللہ سے اچھی امید رکھیں، وہ بندے کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔