حوادث زمانہ اور مثبت انداز فکر
کہا جاتا ہے ایک شخص نے اپنے مطالعہ کے کمرے میں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا:
گزشتہ سال میں، میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا۔
اسی سال میں ہی میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ میں نے نشر و اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔
اسی سال ہی مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔
اسی سال میں ہی میرا بیٹا اپنے میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اُسے کئی ماہ تک پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہو جانا علیحدہ سے نقصان تھا۔
صفحے کے نیچے اس نے لکھا؛ آہ، کیا ہی برا سال تھا یہ!!!
مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اُس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں کو گُھور رہا تھا۔ اُس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا۔ خاوند کو اُس کے حال میں چھوڑ کر خاموشی سے باہر نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد واپس اسی کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا تھا جسے لا کر اُس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ دیا۔ خاوند نے کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا:
اس گزشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا تھا۔
میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ ساٹھ سال کا ہوگیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو کچھ بہتر لکھنے کیلئے استعمال کرسکوں گا۔
اسی سال ہی میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
اسی سال ہی اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی تھی، میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا۔
آخر میں مصنف کی بیوی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی کہ: واہ ایسا سال، جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا اور بخیر و خوبی گزرا۔
ملاحظہ کیجیے : بالکل وہی حوادث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے۔۔۔۔ بالکل اسی طرح اگر، جو کچھ ہو گزرا ہے، اسے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے جو اس کے برعکس ہوتا تو، ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شاکر بن جائیں گے۔
اگر ہم بظاہر کچھ کھو بیٹھیں مگر اسے مثبت زاویے سے دیکھیں تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا ہے وہ بہتر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَإِنَّ رَبََّکَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النََّاسِ وَلَ۔ٰکِنََّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَشْکُرُوْنَ‘‘َ (نمل:73)
’’اور بے شک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے‘‘