مضامین قرآن (38) دعوت کا ابلاغ: فرشتے ۔ ابو یحییٰ
دعوت کا ابلاغ: فرشتے
قرآن مجید میں فرشتوں کے بیان اور ان پر ایمان کا پس منظر
دعوت خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کا عمل ہے۔ یہ کام جب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا جاتا ہے تو اس کے ایک سرے پر انبیا رسل کھڑے ہوتے ہیں جو پیغام الٰہی کو اللہ کے بندوں تک بے کم وکاست پہنچاتے ہیں۔ اس آسمانی وحی کے دوسرے سرے پر فرشتے ہوتے ہیں جو اللہ کے پیغام کو اس سے حاصل کرتے ہیں اور پورے اہتمام اور حفاظت کے ساتھ حضرات انبیاء تک پہنچاتے ہیں۔ قرآن مجید ان بلند مرتبت ہستیوں کو ملائکہ کا نام دیتا ہے۔ اس لفظ کا معنی ہی پیغام پہنچانے والے ہوتا ہے۔ یہی فرشتوں کا وہ منصب اور کام ہے جس کی بنا پر ان پر ایمان کو ایمانیات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ فرشتوں کے پیغام الٰہی لانے کی بنا پر ہی نبی خدا کے نبی بنتے اور کتابیں الہامی کتابیں قرار پاتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کفار نے یہ بہتان تراشا کہ یہ کلام آپ نے خود گھڑ لیا ہے یا یہ کسی جن یا شیطان کا الہام ہے تو قرآن مجید نے بار بار اس بات کو واضح کیا کہ یہ کلام خدا کے مقرب ترین فرشتے روح الامین جبریل علیہ السلام کا لایا ہوا کلام ہے جو آپ کے قلب اطہر پر نازل ہوا ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف اس کلام کی درست نسبت کو واضح کیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ جبریل امین جس درجہ کی طاقتور ہستی ہیں، اس کی بنا پر کسی شیطان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کلام میں کسی قسم کی آمیزش کرسکے۔
قرآن مجید میں فرشتوں کے بیان کی دوسری بنیادی وجہ مشرکین کی اس غلط فہمی کا ازالہ تھا کہ خداوند ذوالجلال کی خدائی میں ان کا کوئی حصہ ہو سکتا ہے۔مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں، وہ اس کے حضور انسانوں کے سفارشی ہیں اور انھی بنیادوں پر خدائی اور بندگی میں ان کا بھی کوئی حصہ ہے۔ قرآن مجید نے اس بات کو بالکل کھول کر واضح کیا ہے کہ وہ تو بس خدا کی مخلوق ہیں جو مکمل طور پر خدا کے فرمانبردار، اسی کی حمد، تسبیح اور تعریف کرنے والے، اس کے خوف سے لرزاں و ترساں رہنے والے، اسی کا حکم بجا لانے والے ہیں۔ بے شک وہ مقرب ہیں۔ صاحب عزت و مرتبہ ہیں، لیکن صرف اسی کے وفادار ہیں۔ ان پر ایمان لانا ہے تو خدا کی مخلوق اور اس کے بندوں کے طور پر لاؤ نہ کہ خدا کی خدائی میں ان کا حصہ مانتے جبین نیاز ان کے سامنے خم کرو۔ یہ کرو گے تو شرک کا ارتکاب کرو گے۔
فرشتے بطور خدائی بیوروکریسی
یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید نے فرشتوں کو متعارف کرایا ہے۔ تاہم فرشتے چونکہ خدا کی اسکیم میں عملاً وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کسی ملک کا انتظام چلانے میں اس کی بیورو کریسی کا ہوتا ہے، چنانچہ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی دیگر خصوصیات کو بھی بیان کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ فرشتے ہی ہیں جو خدا کے ہر فیصلے کو لے کر مخلوق پر نافذ کرتے ہیں اور پھر اس کے حضورپیش ہو کر اپنی کارگزاری بیان کرتے ہیں۔عرش الٰہی جو احکام الٰہی کا اجرا اور خالق کے مخلوق سے رابطے کا استعارہ ہے، اس کو بھی فرشتے ہی اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن بھی وہی اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس دنیا میں بذریعہ ملائکہ خدائی فیصلوں کے نفاذ کی جو بعض مثالیں قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں ان میں وحی کے نزول کے علاوہ، بشارت و عذاب، انسانوں کے قول و فعل کی نگرانی اور ان کے نامہ اعمال کی تالیف، موت اور روح کا قبض کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ آنے والی دنیا میں اہل جہنم کو عذاب دینا اور اہل جنت پر سلامتی کا پیغام پہنچانا بھی ان کے کاموں کے طور پر بیان ہوا ہے ۔
قرآن مجید نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ صاحب شعور اور صاحب ارادہ ہستیاں ہیں۔ وہ خدا سے مکالمہ کرتے، اہل ایمان اور اہل دنیا کے لیے دعا کرتے، ان کی نصرت اور بشارت کے لیے زمین پر اترتے، خدا سے ڈرتے اور لرزاں رہتے اور اپنی مرضی و ارادے سے خدا کے سامنے سراپا اطاعت بنے رہتے ہیں۔
قرآنی بیانات
’’اور یہ کہتے ہیں کہ خدائے رحمان کے اولاد ہے، وہ ان باتوں سے ارفع ہے، بلکہ وہ خدا کے مقرب بندے ہیں۔ وہ اس کے آگے بات میں پہل نہیں کرتے، وہ بس اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں۔ وہ ان کے آگے اور ان کے پیچھے جو کچھ ہے سب سے باخبر ہے۔ اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر صرف اس کے لیے جس کے لیے اللہ پسند فرمائے ۔ اور وہ اس کی خشیت سے لرزاں رہتے ہیں اور ان میں سے جو بھی مدعی بنے گا کہ اس کے سوا میں الٰہ ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے۔ ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیں گے۔‘‘ (انبیا 21: 29-26)
’’وہ فرشتوں کو اپنے امر کی روح کے ساتھ اتارتا ہے اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘ (النحل16: 2)
’’یہ ایک باعزت رسول کا لایا ہوا کلام ہے۔ وہ بڑی ہی قوت والا اور عرش والے کے نزدیک بڑا ہی بارسوخ ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ نہایت امین بھی ہے ۔‘‘ (التکویر81: 21-19)
’’ہرگزنہیں، یہ تو ایک یاد دہانی ہے تو جو چاہے یاد دہانی حاصل کرے۔ لائق تعظیم، بلند اور پاکیزہ صحیفوں میں، معزز باوفا کاتبوں کے ہاتھوں میں۔‘‘ (عبس80: 16-11)
’’اور بجلی کی گرج اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے ڈر سے اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بھیجتا ہے بجلی کے کڑکے اور ان کو نازل کر دیتا ہے جن پر چاہتا ہے اور وہ خدا کے باب میں جھگڑتے ہی ہوتے ہیں اور وہ بڑی ہی زبردست قوت والا ہے ۔‘‘ (رعد13:13)
’’شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے۔ آسمانوں اور زمین کا خالق، فرشتوں کو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے پیغام رساں بنانے والا۔ وہ خلق میں جو چاہے اضافہ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘ (فاطر1:35)
’’اور آسمانوں میں کتنے فرشتے ہیں جن کی سفارش ذرا بھی کام آنے والی نہیں مگر بعد اس کے کہ اللہ اجازت دے جس کو چاہے اور جس کے لیے پسند کرے۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انہی نے فرشتوں کے نام عورتوں کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں۔ حالانکہ اس باب میں ان کو کوئی علم نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان کسی درجے میں بھی حق کا بدل نہیں ۔‘‘ (النجم53: 28-26)
’’خدا کے ساتھ وفاداری محض یہ نہیں ہے کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف رخ کر لو بلکہ وفاداری ان کی وفاداری ہے جو اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر صدق دل سے ایمان لائیں ۔‘‘ (البقرہ 177:2)
’’اور یاد کرو کہ جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتے تمہاری کمک کو بھیجنے والا ہوں جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے ۔ ۔ ۔ یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو تم ایمان والوں کو جمائے رکھو۔ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا تو مارو ان کی گردنوں پر اور مارو ان کے پور پور پر۔‘‘، (الانفال 9: 14-8)
’’جو چالیں تم چل رہے ہو ہمارے فرستادے ان کو نوٹ کر رہے ہیں ۔‘‘ (یونس 21:10)
’’ہرگز نہیں ، بلکہ تم جزا کو جھٹلاتے ہو۔ حالانکہ تم پر نگران مامور ہیں، عالی قدر (تمھارے اعمال و اقوال) لکھنے والے۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔‘‘ (الانفطار82: 12-9)
’’اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں، ہر امر میں، اپنے رب کی اجازت کے ساتھ۔‘‘ (القدر4:97)
’’اس کی طرف فرشتے اور جبریل صعود کرتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ۔‘‘ (معارج 4:70)
’’اس کو ایک مضبوط قوتوں والے، عقل و کردار کے توانا نے تعلیم دی ہے۔ وہ نمودار ہوا، اور وہ افق اعلیٰ میں تھا، پھر قریب ہو گیا اور جھک پڑا، بس دوکمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ پس اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔‘‘ (النجم 53: 10-5)
’’اور ابراہیم کے پاس ہمارے فرستادے خوشخبری لے کر آئے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بولے کہ تم کوئی اندیشہ نہ کرو، ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ ‘‘ (ہود 11: 70-69)
’’کہہ دو کہ تمہاری جان وہ فرشتہ ہی قبض کرتا ہے جو تم پر مامور ہے پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔‘‘ (السجدہ 11:32)
’’جو عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اس کی حمد کے ساتھ، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔ اے ہمارے رب ، تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جو توبہ کریں اور تیرے راستہ کی پیروی کریں اور ان کو عذابِ جہنم سے بچا۔ ‘‘ (المومن 7:40)
’’اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور تیرے رب کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے ۔‘‘ (الحاقہ 17:69)
’’بے شک ان لوگوں پر جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے ، فرشتے اتریں گے کہ اب نہ کوئی اندیشہ کرو اور نہ کوئی غم اور اس جنت کی خوشخبری قبول کرو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی رہے اور آخرت کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں ۔ ‘‘
(حم السجدہ 41: 31-30)
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔ جس پر درشت مزاج اور سخت گیر ملائکہ مامور ہوں گے۔ اللہ ان کو جو حکم دے گا اس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا۔ ‘‘ (التحریم 6:66)