لوگوں کی ذمہ داری ۔ ابو یحییٰ
سماجیات کے طالب علم یہ حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سماج ایک تغیر پذیر شے ہے۔ سماج کبھی ایک جگہ اور ایک جیسا نہیں رہتا۔ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ سے درست تھی۔ دور جدید میں صرف یہ فرق پڑا ہے کہ اب تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کی رعایت کرتے ہوئے جب ختم نبوت کا فیصلہ کیا تو اس بات کو یقینی بنایا کہ دین اسلام کی تعلیمات کچھ اصولی اور بنیادی باتوں تک محدود رہیں۔ اسلام میں تفصیلات اگر ہیں تو وہ عقائد کے ضمن میں ہیں یا پھر اخلاقی احکام میں۔ احکام شریعت میں دین کے جس شعبے میں ہدایات دی گئی ہیں وہ زیادہ تر اصول تک ہی محدود ہیں۔ یہ اہتمام اس لیے کیا گیا ہے کہ اسلام تا قیامت ہر طرح کے حالات میں قابل عمل رہے۔
اسلام کے تحفظ کے لیے ایک دوسرا اہتمام یہ کیا گیا کہ اس دین کو ہر تحریف اور تبدیلی سے محفوظ کر دیا گیا۔ تاہم ہر دور میں لوگ اپنی خواہشات اور تعصبات کو دین کے نام پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ خطرہ بہرحال موجود تھا کہ اصل دین میں کچھ اضافہ کر دیا جائے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے دین میں کسی اضافہ کو بدعت کی شکل میں ایک سخت ترین جرم بنا دیا گیا۔ کلیسا کی طرز پر کسی ادارے کے بجائے صرف اللہ اور رسول کو دین کا مرکز بنایا گیا۔ اس کے ساتھ تکوینی طور پر یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا ہوتے ہیں جو دین کی اصل تعلیم کو پوری قوت کے ساتھ زندہ کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔
اسلام کی حفاظت کا یہی وہ نظام ہے جس کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ تاقیامت اللہ کی اصل بات لوگوں کے سامنے رہے۔ تاہم چونکہ یہ امتحان کی دنیا ہے، اس لیے اصلاً یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے نام پر پیش کی جانے والی مختلف باتوں میں سے درست کو پہچانیں۔ وہ یہ نہیں کریں گے تو روزِ قیامت اللہ کے ہاں سخت جوابدہی کے عمل سے گزریں گے۔