اسلام پر ایک نیا حملہ ۔ ابویحییٰ
اسلامو فوبیا
اس وقت دنیا بھر میں اور خاص کر مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کے دائیں بازو اور انتہا پسند مذہبی طبقات کی طرف سے ایک زبردست مہم جاری ہے۔ یہ مہم جسے عام طور پر اسلامو فوبیا کا نام دیا جاتا ہے، مغربی ممالک میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔
مغربی دنیا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں مسلمان بالعموم مغرب کے حلیف تھے۔ اس زمانے میں مغربی دنیا میں مسلمان تارکین وطن کو عام طور پر بہت خوش آمدید کہا گیا۔ یوں مسلمانوں کی آبادی مغرب میں بڑھتی گئی۔ ان تارکین وطن کے اثر سے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر اسلام مغرب میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک کے انتہا پسند طبقات میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ اسلام یہاں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ چنانچہ نوے کی دہائی میں پہلی دفعہ اسلامو فوبیا کی اصطلاح کی بازگشت سنائی دی۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد اس کی گونج نمایاں ہوئی اور حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور ہمارے بعض فکری اورمذہبی طبقات کی طرف سے ان کی علانیہ اور غیر علانیہ حمایت کی بنا پر مغربی انتہا پسند طبقات کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اسلام کے خلاف اسلامو فوبیا کی ایک مکمل اور بھرپور فکری جنگ شروع کر دیں۔
اسلامو فوبیا کی یہ جنگ جس خوف سے لڑی جا رہی ہے وہ مسلم ممالک یا وہاں رہنے والے مسلمانوں کا خوف نہیں ہے۔ بلکہ مغرب کے انتہا پسند طبقات کو اصل خوف اسلام کی اس دعوتی قوت سے ہے جو تیزی سے مغرب میں اسلام کے فروغ کا سبب ہے۔ اسلامی دعوت کا عمل اگر اسی طرح جاری رہتا تو اکیسویں صدی میں یورپ اور امریکہ میں اسلام اکثریتی مذہب بن جاتا۔ چنانچہ دہشت گردوں کی کاروائیوں کا فائدہ اٹھا کر مغربی انتہا پسند طبقات نے اسلام کے خلاف ایک انتہائی خوفناک مہم شروع کر دی ہے۔ اس مہم کے ذریعے سے نہ صرف ایک مغربی شخص کے سامنے اسلام کا ایسا چہرہ رکھا جا رہا ہے جو اسلام کو ایک ناقابل قبول مذہب بنا دے بلکہ بہت سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں بھی شکوک و شبہات کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔
ایک مکروہ الزام
اس مہم کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ہستی کے حوالے سے بعض ایسی بے ہودگیوں کا انتساب ہے جس کا تصور ہم ایک عام انسان کے لیے بھی بہت برا سمجھتے ہیں۔ باخدا میرا دل نہیں چاہتا کہ اس طرح کی بے ہودگیوں کو قرآن مجید اور سیرت پاک کے دفاع کے لیے اشارۃً بھی نوک قلم پر لاؤں لیکن جب کوئی شخص ہماری طرف کیچڑ اچھالتا ہے تو مجبوراً اس کیچڑ کو دھونے کے لیے اس میں ہاتھ ڈالنے پڑتے ہیں۔
یہ بے ہودہ الزام جو بہت پھیلایا جا رہا ہے اس حوالے سے ہے کہ اسلام بچوں سے جنسی تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔ مغربی انتہا پسند اس حوالے سے قرآن مجید کے ایک بیان اور شادی کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی عمر کے حوالے سے جو کچھ بے ہودگیاں تخلیق کرتے ہیں اور ہمارے بعض اہل علم جس طرح سادگی میں ایسی باتوں کی تائید کر دیتے ہیں، وہ ہمارے سنجیدہ طبقات کو خود اسلام اور پیغمبر اسلام کی شخصیت کے بارے میں سنگین سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس لیے مجبور ہو کر ان بے ہودہ الزامات کو نقل کیے بغیر میں صرف علمی نوعیت کی کچھ وضاحتیں کرنا چاہوں گا۔ یہ وضاحتیں قرآن و حدیث کے حوالے سے ہیں۔ معاندین اسلام قرآن و حدیث کے علاوہ مسلمان مفسرین کی تشریحات اور مسلمان اہل علم کے فتاویٰ بھی اس بات کی تائید میں نقل کرتے ہیں کہ اسلام چھوٹی بچیوں سے جنسی تعلق کی اجازت دیتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ مسلمان اہل علم کی آراء کا دفاع کرنا ہمارا کام ہے نہ اس کی ضرورت ہے۔ جب اصل بات واضح ہوجائے گی تو مزید کسی بحث و مباحثے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
قرآن مجید کے بیانات
قرآن مجید کے جس بیان کو چھوٹی بچیوں سے جنسی تعلق کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، میں اس پر گفتگو کرنے سے قبل یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ قرآن مجید ایک دوسرے مقام پر یہ بات خود ہی واضح کر دیتا ہے کہ شادی بچپن کی چھوٹی عمر کا معاملہ ہرگز نہیں ہے۔ ارشاد ہے:
’’اور تم وہ مال، جس کو خدا نے تمھارے لیے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے، نادان یتیموں کے حوالے نہ کرو، ہاں ان کو اس سے فراغت کے ساتھ کھلاؤ پہناؤ اور دستور کے مطابق ان کی دلداری کرتے رہو، اور ان یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو۔ اور (اس ڈر سے) کہ وہ بڑے ہوجائیں گے اسراف اور جلدبازی کر کے ان کا مال ہڑپ نہ کرو۔‘‘ (نساء 4: 6-5)
اس آیت میں عمر کا کوئی سن تو نہیں دیا گیا ہے اس لیے کہ انسانوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ شادی کی عمر کیا ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسا واضح قرینہ موجود ہے جو اس بات کی قطعی نفی کر دیتا ہیں کہ اسلام کسی نابالغ بچی سے جنسی تعلق کی اجازت دیتا ہے۔ ان آیات میں قرآن مجید نے یتیموں کے اموال ان کے حوالے کرنے کے لیے ’’نکاح کی عمر‘‘ کی حد مقرر کی ہے۔ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے نکاح کی عمر تک پہنچنے کی جب بھی بات کی جائے گی اس سے مراد جنسی بلوغت ہوگی۔ تاہم کوئی نہ سمجھ سکے تو اس کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ نکاح، جنسی تعلق قائم کر کے اپنی نسل جاری رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کام فریقین کی جنسی بلوغت کے بغیر ہو نہیں سکتے۔ اس لیے جب بھی کسی بچے کے لیے کہا جائے گا کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ گیا ہے اس سے مراد یہ ہوگی کہ وہ جنسی بلوغت کو پہنچ گیا ہے اور نابالغ نہیں رہا ہے۔
گویا کہ قرآن مجید کا مدعا یہ ہے کہ نکاح کی عمر وہ ہوتی ہے جب کوئی بچہ بچپنے کی حدود سے نکل کر، اگر لڑکی ہے تو نسوانیت اور لڑکا ہے تو مردانگی کے دور میں داخل ہوجائے۔ قرآن مجید نے اپنے اس مدعا کو اس طرح بھی موکد کیا ہے کہ اسی آیت یعنی آیت چھ میں ’’بڑے ہوجانے‘‘ کو اس کے مترادف اور آیت پانچ میں بچپنے کی چھوٹی عمر کو جس میں بچہ نادان ہوتا ہے اس کے بالمقابل استعمال کیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے باکمال اسلوب میں یہ حقیقت بالکل کھول دی ہے کہ نکاح کی عمر وہ ہوتی ہے جس میں ایک بچہ یا بچی بچپن کی ناسمجھی سے نکل کر جوانی کے بڑے پن میں داخل ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ قرآن مجید شادی کو بچپن اور جنسی بلوغت سے قبل کا کوئی معاملہ نہیں قرار دیتا بلکہ بڑی عمر کا معاملہ سمجھتا ہے جب بچوں پر بڑوں کا اطلاق ہونے لگتا ہے۔
سردست اس آیت کے حوالے سے اتنا ہی کہ ہم نے اس آیت پر آگے مزید بات کی ہے، تاہم ایک نکتہ یہاں مزید واضح کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اسی سورہ نساء میں مہر کو شادی کی شرط کے طور پر بار بار بیان کیا گیا ہے۔ مہر کے متعلق معلوم ہے کہ یہ مالی ادائیگی کا معاملہ ہے۔ یعنی یہ مال ہے جو دولہا دلہن کی مالی ذمہ داریاں اٹھانے کے عہد کے طور پر بطور ٹوکن شادی سے قبل یا اسی موقع پر اسے دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن چھوٹے بچوں کو ان کے اپنے مال دینے سے تو منع کر رہا ہے، وہ ان کو اسی چھوٹی عمر میں نکاح جیسے معاہدے میں دھکیلنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے جس کے متعلق اس کا بار بار اصرار ہے کہ یہ مال دے کر کیا جائے۔ اس لیے ہمارے نزدیک اِس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ’’حتی بلغوا النکاح‘‘ الفاظ استعمال کر کے یہ بت ادیا ہے کہ جنسی بلوغت سے پہلے بچپنے کی عمر نکاح کی عمر نہیں ہے۔
قرآن پر نالغ بچیوں سے جنسی تعلق کی اجازت کے الزام کی حقیقت
اب آئیے اس آیت کی طرف جس کی بنیاد پر معاندین اسلام یہ الزام لگاتے ہیں کہ چھوٹی بچیاں جن کو حیض نہ آیا ہو ان سے جنسی تعلق کی اجازت ہے۔ یہ سورہ طلاق (65) کی آیت نمبر 4 ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں، اگر ان کے باب میں شک ہو تو، ان کی عدت تین مہینے ہے، اور (اسی طرح) ان کی بھی جن کو حیض نہ آیا ہو۔‘‘
شبلی نے کہیں لکھا تھا کہ مستشرقین جو بھی کالک اسلام کے روشن چہرے پر لگائیں، اس کے لیے سیاہی ہم مسلمان ہی ان کو فراہم کرتے ہیں۔ یہی حال اس آیت کا ہے۔ ہمارے بہت سے اہل علم یہ رائے رکھتے ہیں اور اس آیت کے ذیل میں بیان کرتے ہیں کہ جن چھوٹی بچیوں کو حیض نہ آیا ہو یہ آیت ان ہی سے متعلق ہے۔ اور اس کی رو سے ان سے جنسی تعلق قائم کرنا درست ہے کیونکہ یہاں عدت کا حکم بیان ہو رہا ہے اور عدت صرف اسی خاتون کی ہوتی ہے جس کے ساتھ شوہر تعلق قائم کرچکا ہو۔ چنانچہ معاندین اسلام یہ آیت اٹھاتے ہیں اور اس کی روشنی میں ہر جگہ یہ بات پھیلاتے ہیں کہ دیکھو قرآن تو چھوٹی بچیوں سے جنسی تعلق کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا جو ردعمل ہوتا ہے اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے۔
ہمارے نزدیک قرآن مجید جو بات کر رہا ہے اس کا سادہ ترین مطلب یہ ہے کہ جو خواتین حیض کی عمر کو پہنچ چکی ہوں لیکن کسی مسئلے کی وجہ سے ان کو حیض نہ آیا ہو ان کی عدت تین ماہ ہے۔ اس سے مراد وہ چھوٹی بچیاں ہیں ہی نہیں جو حیض کی عمر کو نہ پہنچی ہوں۔
ہمارے نزدیک سیاق کلام اس کے سوا کسی دوسرے مفہوم کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ آیت ’’من نسائکم‘‘ یعنی تمھاری عورتوں کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ لفظ عورت کا اطلاق کسی صورت ایک نابالغ لڑکی پر نہیں ہوسکتا جب تک کہ کوئی بالکل واضح قرینہ یا موقع محل نہ ہو۔ یہاں سرے سے کوئی قرینہ ہی نہیں ہے کہ یہاں ’’النساء‘‘ سے نابالغ لڑکیاں مراد لی جائیں۔ بلکہ اس کے برعکس طلاق، عدت، اور حیض جیسی اصطلات استعمال ہوئی ہیں جو بلوغت تک پہنچی ہوئی خواتین سے متعلق ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہاں ’’النساء‘‘ کا لفظ صرف بالغ عورتوں کے لیے محدود ہوچکا ہے۔
بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی روشنی میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تین حیض یا تین ماہ کی عدت کا مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ خاتون حمل سے ہے یا نہیں۔ کیونکہ سورہ احزاب (49:33) میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جس خاتون سے تعلق زن و شو قائم نہ ہوا ہو اس کی کوئی عدت نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو بچی اپنی کم عمری کی بنا پر بلوغت کو نہیں پہنچی وہ کسی صورت حاملہ ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس کو عدت گزارنے کا حکم تو دیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس لیے ایک نابالغ لڑکی کسی طور اس حکم کی مخاطب نہیں ہوسکتی۔
چنانچہ سیاق کلام نص قطعی ہے کہ یہاں جن خواتین کے حیض نہ آنے کا ذکر ہے ان سے مراد بالغ لڑکیاں ہیں جن کو جسمانی بلوغت اور نسوانی شباب کے تمام دیگر آثار ظاہر ہونے کے باوجود حیض نہ آیا ہو۔ یہاں کسی صورت وہ بچیاں مراد نہیں جو حیض کی عمر کو پہنچی ہی نہ ہوں۔ ورنہ اگر یہی مفہوم مراد لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیض تو تین سال، تین ماہ، تین دن بلکہ تین گھنٹے پہلے پیدا ہونے والی بچی کو بھی نہیں آیا ہوتا۔ اگر مراد یہی ہے تو پھر تین گھنٹے کی بچی سے مقاربت کے اس عمل کو جس کی شناعت کو بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ ایجاد نہیں ہوا، اس کے جواز کا فتویٰ کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ اگر یہ بات واضح ہے تو کم از کم کوئی مسلمان مفسر تو آئندہ اس سے یہ مفہوم مراد نہیں لے گا۔ رہے معاندین ان کا اس دنیا میں کوئی علاج نہیں۔
یہاں ایک معترض دو سوالات اٹھا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ جن خواتین کو حیض کی عمر کو پہنچنے پر بھی حیض نہ آیا ہو ان کا ذکر آیت کے پہلے حصے میں ’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں‘‘ کے الفاظ سے آچکا ہے، اس لیے جن کو حیض نہ آیا ہو سے وہ مراد نہیں ہوسکتیں۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر بچیوں کے لیے ’’النساء‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے یہاں بھی النساء میں بچیوں کو شامل کرنا غلط نہیں۔ ہمارے نزدیک اس طرح کے اعتراضات محض کج بحثی کے سوا کچھ نہیں۔ حیض سے مایوس ہونے کے الفاظ سے ذہن صرف ان خواتین کی طرف منتقل ہوتا ہے جو بڑی عمر کو پہنچ چکی ہوں اور ان کا جسمانی نظام اب حیض لانے سے قاصر ہوچکا ہو۔ ایک جوان عورت جسے کسی عارضے یا نقص کی بنا پر حیض نہ آیا ہو اس کے لیے یہ الفاظ درست نہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ عرصے بعد، حمل اور بچوں کی پیدائش کے بعد، علاج معالجے کے بعد اسے حیض آجائے۔ اس کے لیے مایوس ہونے کی اصطلاح کسی طور موزوں نہیں نہ قرآن میں یہ اس سے مراد ہے۔
رہا دوسرا سوال تو بے شک قرآن مجید نے اس واقعے کے بیان کے لیے جب فرعون نے بنی اسرائیل کی بچیوں کو چھوڑ کر ان کے نومولود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، استعمال کیا ہے۔ مگر وہاں ہر جگہ ایک بالکل واضح قرینہ ہے کہ یہاں ’’النساء‘‘ یعنی عورتیں بول کر بیٹیاں مراد لی جا رہی ہیں۔ وہ یہ کہ یہ لفظ ہر جگہ ’’ابناء‘‘ یعنی بیٹوں کے لفظ کے بالمقابل آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ تاریخی پس منظر بھی مخاطبین کو معلوم تھا کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ اس لیے کسی کو قرآن مجید کے حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں ہوسکتی تھی۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید نے یہ لفظ استعمال ہی کیوں کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ فرعون کے پیش نظر یہ تھا کہ غلام قوم کی یہ بچیاں زندہ رہ کر عورتوں کی عمر کو پہنچیں اور پھر ہماری خادمائیں بنیں۔ دوسرا سبب وہی ہے جسے صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی نے بیان کیا ہے بنی اسرائیل کی غیرت کو حرکت میں لانے کے لیے یہ تعبیر زیادہ موثر تھی، (211/1)۔ چنانچہ قرآن مجید نے انتہائی بلیغ طور پر ’’النساء‘‘ کا لفظ ’’ابناء‘‘ کے بالمقابل استعمال کیا۔ جس سے نہ صرف اصل بات بیان ہوگئی بلکہ فرعون کے ظلم اور اللہ کے احسان کی نوعیت بھی پوری طرح واضح ہوگئی کہ فرعون نے ان کی جو بچیاں چھوڑی تھیں بطور احسان نہیں چھوڑیں بلکہ اس لیے چھوڑیں کہ ایک روز یہ بچیاں جوان عورتیں بن کر مصریوں کے گھروں اور بستروں کی زینت بنیں۔ اللہ تعالیٰ اگر ان کو فرعون کی غلامی سے نجات نہ دیتے تو یہی ان کا مقدر تھا۔ اس طرح ’’ تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے‘‘ کے الفاظ سے جو بات سمجھائی گئی وہ کبھی ’’ تمھاری بچیوں کو زندہ رکھتے‘‘ کہ الفاظ سے واضح نہیں ہوسکتی تھی۔
حضرت عائشہ کی شادی کی عمر
یہ معاملہ تو قرآن مجید کا تھا۔ سیرت کے حوالے سے سیدہ عائشہ کی شادی کے وقت ان کی جو عمر بعض روایات میں بیان ہوئی ہے اس سے بھی یہ معاندین وہ مضامین اخذ کرتے ہیں جو ناقابل بیان ہیں۔ ہم کافی پہلے اسی نوعیت کے اس سوال کے جواب میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ قارئین کے لیے وہ تحریر بعینہ درج ذیل نقل ہے۔
روایات میں یہ بات آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر 6 برس اور رخصتی کے وقت 9 برس تھی۔ مگر یہ روایات قرآن، حدیث، تاریخ اور عقل عام سب کے خلاف ہیں۔ بہت سے اہل علم نے اپنی کتابوں مثلاً حکیم نیاز احمد نے کشف الغمۃ عن عمر ام الامۃ اور علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’عمر عائشہ‘ میں تفصیل کے ساتھ بحث کر کے ان سارے دلائل کو جمع کر دیا ہے جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نکاح کے وقت سیدہ کی عمر وہ نہیں تھی جو بیان کی جاتی ہے، بلکہ وہ ایک بالغ اور نوجوان خاتون تھیں۔ نکاح کے وقت ان کی عمر سولہ برس اور رخصتی کے وقت انیس برس تھی۔ مگر راوی نے اسے غلطی سے چھ اور نو بنا دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عربی زبان میں دس سے اوپر کے اعداد کو ایک مرکب عدد کے طور پر بولا جاتا ہے۔ انگریزی میں یہ بیس کے بعد ہوتا ہے۔ اس لیے اکیس کے عدد کو Twenty one کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی میں دس سے اوپر یہی اصول ہے۔ چنانچہ سولہ کا ہندسہ الفاظ کی شکل میں ست عشرۃ اور انیس کا ہندسہ تسع عشرۃ کے طور پر بیان کیا گیا ہوگا جسے راوی کی غلطی نے ست (6) اور تسع (9) بنا دیا۔ تفصیل کے لیے آپ مذکورہ بالا کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ ہم ذیل میں آپ کی سہولت کے لیے چند اہم نکات قرآن، حدیث، تاریخ اور عقل عام کے حوالے سے بیان کیے دیتے ہیں۔
قرآن کریم کا بیان
قرآن کریم میں کہیں براہِ راست تو یہ بیان نہیں ہوا کہ نکاح کی عمر کیا ہوتی ہے، مگر نکاح کی عمر کی دو خصوصیات کی طرف ذیل کی آیت میں واضح اشارہ کر دیا گیا ہے۔
’’اور ان یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو۔ اور(اس ڈر سے) کہ وہ بڑے ہو جائیں گے اسراف اور جلدبازی کر کے ان کامال ہڑپ نہ کرو۔‘‘، (النساء 4 :6)
اس آیت کے مطابق نکاح کی عمر وہ ہوتی ہے جس کے بعد انسان میں ’رشد‘ یعنی سمجھ پیدا ہوجائے۔ یہاں اس سمجھ سے مراد مالی معاملات کی نگرانی کی سمجھ ہے۔ کیونکہ یہ آیت یہی بتا رہی ہے کہ یتیموں کے مال نکاح کی عمر میں پہنچنے پر ان کے حوالے کر دو۔ دوسری بات یہاں یہ بیان کی گئی ہے ان کے بڑے ہونے کے خوف سے ان کے مال جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو۔ یہ ’بڑا ہوجانا‘ وہ دوسرا اشارہ ہے جو نکاح کی کم از کم عمر کو بیان کرتا ہے۔ یعنی اس انسان پر بچے کا اطلاق نہ کیا جاسکے۔ جن لوگوں نے کبھی غور سے کسی نو سال کی بچی یا بچے کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ نو سال کے بچے میں نہ مالی معاملات چلانے کی سمجھ ہوتی ہے اور نہ اس پر کسی بڑے کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کسی نو سالہ بچی سے شادی کریں، یہ چیز قرآن پاک کے اپنے بیان کی رو سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔
علم وعقل اور مشاہدات کا فیصلہ
قرآن پاک کی درج بالا آیت کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن نکاح کی عمر سے متعلق کوئی نیا حکم نہیں دے رہا بلکہ انسانوں میں رائج ایک معمول کو بیان کر رہا ہے۔ عرب کے اس زمانے کے جو حالات بھی ہمارے سامنے ہیں، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں لڑکیوں کے نکاح کی عام عمر وہی تھی جس میں انہیں کنواری نوجوان لڑکی کہہ کر بلایا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ عمر جسے انگریزی میں Teen Age کہتے ہیں۔ آج بھی عرب ہو یا عجم اسی عمر میں لڑکیوں کی شادی عام رواج ہے۔ ایسے میں اگر سیدہ کی شادی چھ برس اور رخصتی نو برس میں ہوئی تھی اور وہ بھی سرکار دوعالم جیسی ہستی کے ساتھ جن کے دشمن عداوت اور جانثار محبت کے آخری درجہ پر پہنچے ہوئے تھے تو اس کے ساتھ دو واقعات ضرور بیان ہونے چاہیے تھے۔ ایک یہ کہ قریش مکہ اور منافقین مدینہ دونوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اندھے ہو رہے تھے، وہ اس واقعے کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ اہل عرب میں میاں بیوی کی عمر میں زیادہ فرق ہونا ایک عام بات تھی، لیکن ایک بچی سے شادی کرنا ایسی بات نہ تھی جس پر طوفان نہ اٹھایا جاتا۔
مگر ہم دیکھتے ہیں اس حوالے سے آج کے مستشرقین تو حضور کے خلاف بدگوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، مگر اس دور کے کفار و منافقین خاموش رہتے ہیں۔ دوسری بات جو لازماً ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ سیدہ کی شادی کا واقعہ صرف ایک راوی ہشام بن عروہ بیان نہیں کرتے بلکہ کئی لوگ اس بات کو ایک غیر معمولی واقعے کے طور پر بیان کرتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں بلکہ یہ پورا واقعہ صرف ایک صاحب ہشام بن عروہ سے مروی ہے۔ وہ بھی اسے اپنی پوری زندگی میں کبھی بیان نہیں کرتے سوائے عمر کے آخری حصے کے جب وہ مدینہ سے عراق منتقل ہوئے۔ 131ھ کے بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں تمام محققین یہ کہتے ہیں اس زمانے میں ان کی یادداشت متاثر ہوچکی تھی۔ ابن حجر نے تہذیب التہذیب اور حافظ ذہبی نے میزان میں ہشام کے اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اسی لیے اہل علم ہشام کی ان روایات کو لینے میں بہت محتاط رہتے ہیں جو انہوں نے عمر کے آخری حصے میں عراق میں بیان کیں۔ سیدہ کے نکاح کی روایت ایک ایسی ہی روایت ہے، مگر چونکہ اس کا تعلق حلال و حرام سے نہیں بلکہ ایک تاریخی بیان سے ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ ہمارے اہل علم کا عام طریقہ ہے کہ زیادہ سختی صرف حلال و حرام اور احکام کی روایات پر کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہر حلال و حرام سے زیادہ اہم ہے اور اس روایت پر اس پہلو سے غور کیا جانا چاہیے
۔
احادیث کا بیان
صحیح بخاری ہی میں بعض ایسی احادیث ہیں جو بالواسطہ طور پر سیدہ کی صحیح عمر خود بیان کر دیتی ہیں۔ مثلاً بخاری کتاب التفسیر کی ایک روایت ہے جس میں سیدہ سورہ قمر کی ایک آیت کا حوالہ دے کر کہتی ہیں کہ اس کے نزول کے وقت میں ایک ’جاریۃ‘ یعنی لڑکی تھی اور کھیلا کودا کرتی تھی۔ سورہ قمر میں شق قمر کا مشہور واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ کی بنا پر مفسرین اور محدثین اس سورت کے زمانہ نزول کے بارے میں متفق ہیں کہ یہ سورت نبوت کے پانچویں برس نازل ہوئی۔ ہشام بن عروہ کی روایت کی رو سے سیدہ کی پیدائش 5 نبوی میں ہونی چاہیے۔ گویا ہشام کے مطابق جس سن میں ان کی پیدائش ہونی چاہیے، بخاری کی اِس روایت کے مطابق ٹھیک اسی سن کا واقعہ سیدہ بیان کرتی ہیں کہ میں اس وقت کھیلنے کودنے کی عمر میں داخل ہوجانے والی ایک لڑکی تھی۔ اس واقعے کے آٹھ برس بعد ہجرت ہوئی اور ہجرت کے ایک دو برس بعد آپ کی رخصتی ہوئی۔ اس حساب سے سورہ قمر کے نزول کے نو دس برس بعد رخصتی کے وقت آپ لڑکپن سے نکل کر جوانی کے دور میں داخل ہوچکی تھیں ۔ہمارے نزدیک یہی بات ٹھیک ہے۔
اس تفصیل کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ہشام والی روایت کو ٹھیک مانیں گے تو ہمیں بخاری کی اِس روایت کا انکار کرنا ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف بخاری و مسلم کی مستند روایات کے مطابق سیدہ جنگ بدر اور احد میں شریک تھیں۔ جنگ احد کے موقع پر آپ ام سلیم کے ہمراہ پانی کے مشکیزے اٹھائے مسلمانوں کو پانی پلاتی پھر رہی تھیں (بخاری کتاب الجہاد و السیر، باب غزوالنساء وقتالھن مع الرجال)۔ جنگ جنگ ہوتی ہے بچوں کا کھیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے موقع پر 15 برس سے کم عمر بچوں کو جنگ میں شرکت سے منع کر دیا تھا۔ جبکہ سیدہ کی عمر جنگ احد کے وقت ہشام کی روایت کے مطابق گیارہ برس کی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے اتنی کم سنی میں انہیں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ کی عمر سے متعلق ہشام کی روایت درست نہیں، بلکہ سیدہ کی عمر نکاح کے وقت زیادہ تھی۔
تاریخ کا بیان
متعدد تاریخی حوالے بھی یہ بات واضح کرتے ہیں کہ سیدہ کی عمر اس سے زیادہ ہے جتنی ہشام کی روایت میں بیان ہوئی ہے۔ مثلاً مورخ طبری اپنی کتاب تاریخ طبری میں حضرت ابوبکر کے حالات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ ان کی چار اولادیں تھیں اور سب کی سب زمانہ جاہلیت یعنی اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ 5 نبوی کو نہیں بلکہ اس سے کہیں پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ آپ کی عمر ہجرت کے وقت سترہ اٹھارہ برس تھی۔ مثلاً یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سیدہ اپنی بہن حضرت اسماء سے دس برس چھوٹی تھیں۔ حضرت اسماء کا انتقال ہجرت کے 73 سال بعد سو برس کی عمر میں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہجرت کے وقت ان کی عمر 27 برس اور نتیجے کے طورپر سیدہ کی 17 برس ہونی چاہیے۔ اس بات کو ذہبی نے سیر اعلام النباء میں، ابن حجر نے تقریب التہذیب میں اور ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں بیان کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سیدہ کی عمر سولہ برس اور رخصتی کے وقت انیس برس تھی جسے راوی کی غلطی نے چھ اور نو کر دیا۔
ہم نے یہاں چند ہی دلائل بیان کیے ہیں اس لیے کہ سوال کے جواب میں اتنی ہی تفصیل کی جاسکتی ہے۔ تفصیلی دلائل کے لیے آپ حکیم نیاز احمد کیکشف الغمہ اور علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی کی ’عمر عائشہ‘ اور دیگر کتابیں دیکھ سکتے ہیں۔
جہاں رہیں بندگان خدا کے لیے باعث رحمت بنیے، باعث آزار نہ بنیے۔