راہ عمل راہ نجات ۔ ابویحییٰ
سرد جنگ (1947 تا 1991) انسانی تاریخ کا اہم ترین دور ہے۔ اس جنگ میں دوسری جنگ عظیم کے دو فاتح یعنی سوویت یونین اور امریکہ اپنے اپنے اتحادیوں سمیت نصف صدی تک مدمقابل رہے۔ اس پورے عرصے میں انسانیت، دو عظیم جنگوں میں کروڑوں لوگوں کی موت کا منظر دیکھنے کے بعد، ایٹمی جنگ کے خطرات سے لرزتی رہی۔ یہ تیسری عالمگیر جنگ اگر ہوجاتی تو پوری انسانیت صفحہ ہستی سے مٹ جاتی۔
یہ نصف صدی کا عرصہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم ترین نعمت تھا۔ جنگ عظیم کی شکست خوردہ یورپی اقوام تمام مسلم ممالک کو آزادی دینے پر مجبور ہوچکی تھیں۔ صدیوں سے علمی جمود کا شکار مسلمان اس آزادی کے باوجود دنیا میں ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے قدموں میں تیل کے سمندر بہا دیے۔ ان کی آبادی اور جغرافیہ ایسا شاندار تھا کہ ساری دنیا ان کی اہمیت ماننے پر مجبور تھی۔ اس سے بڑھ کر مسلمان کسی سپر پاور سے حالت تصادم میں ہونے کے بجائے دو سپر پاور کی کشمکش میں مکمل چین و آرام کے ساتھ تھے۔
یہ سارے مواقع اس لیے دیے گئے تھے کہ ختم نبوت کے بعد اسلامی دعوت دنیا بھر میں مسلمانوں کے ذریعے سے پھیلتی رہے۔ بدقسمتی سے مسلمان لیڈرشپ ان مواقع کو نہیں دیکھ سکی۔ وہ دعوت دین اور قومی تعمیر کے بجائے دوسرے لایعنی کاموں میں مشغول رہی۔ تاہم حالت امن کی بنا اور مسلمان تارکین وطن کے ذریعے سے اسلامی دعوت مغرب میں پھیلنا شروع ہوگئی۔ اس دوران میں سرد جنگ ختم ہوگئی۔ اس جنگ کے فاتح مغرب کو ایک نئے حریف کی ضرورت تھی۔ چنانچہ سیموئل ہٹنگٹن نے 1993 میں اپنے مقالے تہذیبوں کے تصادم میں چین اور مسلم دنیا کو ایک ممکنہ حریف کے طور پر پیش کر دیا۔
چینی قوم کی قیادت ایک باشعور لیڈرشپ کر رہی تھی۔ چنانچہ اس نے یہ فوراً محسوس کرلیا کہ طاقتور اور کمزور کی لڑائی میں ہمیشہ کمزور فریق کا نقصان ہوتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ہر موقع پر تصادم سے بچتے ہوئے اپنی کمزوری کو قوت میں بدلنا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی نادان لیڈرشپ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ یہ لیڈر شپ جو سرد جنگ کے زمانے میں اپنی قوم کی تعمیر میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی تھی، ایک دفعہ پھر نادان ثابت ہوئی اور دائیں بازو کے مغربی انتہا پسند طبقے کے بچھائے ہوئے اس جال میں پھنس گئی۔ مغرب کے انتہا پسند طبقے کو جس کمزور حریف کی ضرورت تھی، مسلمان لیڈرشپ نے یہ حریف تھالی میں رکھ کر اسے پیش کر دیا۔ چنانچہ 9/11 کے بعد عملی طور پر مسلمان اور اہل مغرب کے درمیان ایک غیر ضروری جنگ شروع ہوگئی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کا جو کچھ نقصان ہوا اس سے کہیں بڑھ کر اسلام کی دعوت کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت مغرب میں اسلام فوبیا اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ آج ایک طرف مسلمان انتہا پسند ہیں جو معصوم بچوں کو اسکول میں قتل کرتے وقت بھی کلمہ طیبہ اور اللہ اکبر جیسے مقدس الفاظ ادا کرتے اور اسلام کا بدترین تعارف دنیا کو کراتے ہیں اور دوسری طرف مغربی انتہا پسند ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر کے اپنے عوام کو اسلام سے متنفر کر رہے ہیں۔
یوں ہر پہلو سے اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ اسلام کا نقصان ہے۔ ایسے میں تمام باشعور مسلمانوں خاص کر مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا ایک ایک لمحہ اسلام کے درست تعارف کے لیے وقف کر دیں۔ وہ مشتعل ہونے کے بجائے سراپا دعوت بن جائیں۔ قرآن مجید کو مغرب کے ہر گھر میں پہنچا دیں ۔ پیغمبر اسلام کے اخلاق عالیہ کا عملی نمونہ بن جائیں۔ نفرت اور تعصب پر مبنی ہر بات سننے سے انکار کر دیں۔ یہی مسلمانوں کے لیے واحد راہ عمل ہے۔ یہی مسلمانوں کے لیے راہ نجات ہے۔