حجامت ۔ ابویحییٰ
آج کی نشست میں عارف اپنا ایک واقعہ سنا رہے تھے جو کل شب انھوں نے حجام کی دکان پر دیکھا تھا۔ سامعین پوری توجہ سے ان کی بات کو سن رہے تھے ۔
’’بچے کی عمر یہی کوئی ایک برس ہوگی۔ اس عمر کے بچوں کی معصومیت تو ویسے ہی دل موہ لیتی ہے، مگر یہ گول مٹول اور سرخ و سفید بچہ اور بھی پیارا لگ رہا تھا۔ مگر اِس وقت وہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ اس کے دادا اسے گود میں بٹھائے ہوئے تھے اور حجام بڑی تیزی اور مہارت سے اس کے بڑھے ہوئے بالوں کو چھاٹنے میں مصروف تھا۔ حجام کے کہنے پر دادا نے بچے کے دونوں ہاتھ بھی پکڑ لیے کہ اس کی مزاحمت حجام کی قینچی کا رخ بالوں سے ہٹا کر اس کی جلد یا سر کی طرف نہ کر دے۔
اس پر بچے کی آہ و فغاں میں اور اضافہ ہوگیا اور اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔ دادا نے اپنی گرفت کم نہیں کی۔ وہ ہنسا کر، باتیں کر کے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کرتے رہے، مگر بچہ روتا رہا۔ آخرکار حجامت ختم ہوئی۔ بچہ فوراً چپ ہوگیا۔ مگر اب اس کی خوبصورت شکل تراشے ہوئے بالوں کے ساتھ اور نکھر گئی تھی۔ یہ وہ فرق تھا جو بچے کے علاوہ ہر شخص کو سمجھ میں آگیا تھا۔ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ بچہ بھی یہ بات سمجھنے لگے گا۔‘‘
یہ آخری جملہ کہتے ہوئے عارف مسکرانے لگے اور پھر بولے:
’’حجامت کا یہ واقعہ ایک دوسرے پہلو سے ہم میں سے ہر شخص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ زندگی میں ایک سے زیادہ مواقع پر ہماری ’’حجامت‘‘ شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ’’حجامت‘‘ کبھی دکھ اور بیماری کے ہاتھوں ہوتی ہے تو کبھی تنگی و محرومی کے ذریعے سے۔ کبھی حالات کی ستم ظریفی کا نتیجہ ہوتی ہے تو کبھی اپنے اور بے گانوں کے ہاتھوں سے دیے گئے زخم اس کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ حجامت جب بھی ہوتی ہے، ہم بے چین ہوجاتے ہیں۔ تڑ پتے اور روتے ہیں۔ مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ بارہا حالات کے آہنی ہاتھ اس طرح ہمیں اپنی گرفت میں لیتے ہیں کہ ہر مزاحمت کا امکان ختم کر دیتے ہیں۔
بے کسی اور بے بسی کے ان لمحوں میں ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کوئی دلاسہ کافی نہیں ہوتا اور کوئی تسلی دل کو سکون نہیں دیتی۔ قرار لٹ جاتا ہے اور چین کی دنیا برباد ہوجاتی ہے۔ بے سکونی اور بے صبری کے ان لمحوں میں نہ دعا کام آتی ہے، نہ وظیفے مسئلہ حل کرتے ہیں۔ لیکن معصوم بچے کی حجامت کا یہ سبق یاد رہے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ دکھ، یہ بیماری، یہ پریشانی، یہ محرومی زندگی کے عارضی واقعات ہیں۔ ان کا مقصد ہمیں بہتر بنانا ہوتا ہے۔‘‘
محفل پر سناٹا طاری تھا۔ اگر کوئی آواز تھی تو معرفت کی اس بہتی آبشار کی تھی۔
’’انسانی زندگی عام حالات میں خوشیوں اور نعمتوں سے عبارت ہوتی ہے۔ مگر اکثر انسانوں کو نعمتیں؛ غفلت اور معصیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ چیزیں انسان کے اخلاقی وجود کو مکروہ اور بدصورت بنا دیتے ہیں۔ دنیا والوں کو شاید یہ اخلاقی مکروہ پن محسوس نہ ہو، مگر رب کریم کا حسن لازوال اپنے بندوں کو ایسی غلاظت میں لتھڑا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی شفقت جوش مارتی ہے۔ وہ حالات کو قینچی بنا کر اپنے لونڈی غلاموں کی حجامت کر دیتا ہے۔ یہ حجامت اپنوں ہی کی ہوتی ہے۔ غیروں کو تو وہ اخلاقی نجاستوں کی دلدل ہی میں چھوڑ کر بے پروا ہوجاتا ہے۔
اس لیے جب زندگی میں ’’حجامت‘‘ شروع ہو تو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یقین رکھنا چاہیے کہ یہ عارضی مرحلہ ہے۔ جلد گزر جائے گا۔‘‘، بات یہیں تک پہنچی تھی کہ ایک صاحب بول اٹھے۔ ’’مگر میں تو کبھی نہیں چاہوں گا کہ میری ایسی حجامت ہو۔ کیا اس کا بھی کوئی نسخہ ہے؟‘‘
’’ہاں ہے اور بہت آسان نسخہ ہے۔ اپنے اخلاقی وجود کی گہری نگہداشت کریں۔ اسے حرص، ہوس، تکبر، نفرت، تعصب، غفلت سے دور رکھیں۔ کثرت سے اللہ کے حضور استغفار کرتے رہیں۔ یقین جانیں پھر آپ پر ہمیشہ بہت ہلکا ہاتھ رکھا جائے گا۔‘‘
محفل تمام ہوئی اور معرفت کا ایک اور سبق سننے والوں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔