حکمت اور ہدایت ۔ شمائلہ عثمان
ہمارے معاشرے میں جو غلط روایات عام ہیں ان میں سے ایک مثال واقعات اور چیزوں کا غلط وقت اورغلط جگہ پر استعمال ہے۔ اس غلط استعمال اور انطباق سے ان مثالی چیزوں کی افادیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور معاشرہ کو بھی فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ اس غلط انطباق (Application) کی مثال ایسے ہی ہے جیسے سر درد میں اسہال کی دوا کھانا، یا دل کی تکلیف کا علاج کیمو تھراپی سے کرنا وغیرہ۔
معاشرے میں ایسی بے شمار کمزوریاں ہیں جنہیں مذہب کے ساتھ نتھی کر کے بےعلم اور بے شعور ذہنوں کو غلط رہنمائی دی جا رہی ہے۔ مثلاً جہاد جیسے عظیم اسلامی حکم کی فضیلت، ضرورت، حکمت اور افادیت کو توڑ موڑ کر خود کش بمباری میں معصوم انسانوں کے قتل کے جواز میں پیش کرنا۔ جہیز جیسی لعنت کو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی نسبت دے کر غریبوں پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا گیا۔ قوانین وراثت میں کمزور اور خواتین کے حقوق سلب کرنے کے لیے قرآن سے شادی اور دیگر جاہلانہ رسوم کو رواج دیا گیا۔ خواتین سے متعلق بعض احکام کو غلط رنگ دے کر خواتین کو معاشرے کا فعال رکن بننے سے روکا گیا، چار شادیوں کی اجازت کی حکمت، شرائط اور پس منظر جانے بغیر اپنی عیاشیوں کے لیے استعمال کرنا وغیرہ۔
آج کل کم عمری کی شادی موضوع بحث ہے جس میں خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کیا صرف حوالہ یا مثال دے دینا کافی ہے؟ یا اللہ کی مرضی اور حکمت کو جاننا بھی ضروری ہے۔ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رشتہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا سے ہوا تھا جس میں بہت حکمت اور مصلحت تھی۔ مگر لوگ ان ساری حکمتوں اور مصلحتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف کم عمر خاتون سے بڑی عمر کے فرد کا حکم اخذ کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت کے لیے ایک انتہائی ذہین اور کم عمر خاتون کا انتخاب کیا گیا تھا تاکہ آپ کے بعد وہ آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں لوگوں کی رہنمائی کرسکیں۔ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ایک ٹین ایجر کی ذہنی صلاحیت ایک زیادہ عمر کے انسان کی ذہنی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رفاقت کا عرصہ ایک سیکھنے والے ذہن کے لیے بہترین وقت تھا۔ اسی طرح سکھانے والی شخصیت کے لیے یہ بہترین وقت تھا کہ اس وقت مدینہ میں ہر طرح کے حالات پیش آرہے تھے۔ پھر ایک مرد کی شخصیت کے سارے روپ جتنا کھل کر بیوی کے سامنے آسکتے ہیں کسی اور رشتے میں ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی باقی عمر امت کی رہنمائی کے لیے وقف تھی۔ صحابہ کرام ؓ بھی بعض معاملات میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے رہنمائی حاصل فرماتے تھے۔
سیدہ رضی اللہ عنہا کا یہی رول تھا جس کی بنا پر آپ کو اولاد پیدا کرنے کی بہترین عمر کے باوجود کوئی اولاد نہیں دی گئی تاکہ آپ کی ساری توجہ علم کی طرف مبذول رہے۔ یہی رول آپ کی باقی ازواج مطہرات کا بھی تھا لیکن سیدہ کی ذہانت اور سیکھنے والی عمر کی بنا پر ان کا کردار سب سے نمایاں تھا۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرمثال ظاہری طور پر ہر شخص پر صادق نہیں آتی۔ اس کے پس منظر اور حکمت میں ہمارے لیے ہدایت ہے۔