حضرت عمر اور تورات ۔ ابویحییٰ
مسلمانوں میں ایک روایت بہت مشہور ہوگئی ہے جس کی بنا پر یہ خیال عام ہے کہ سابقہ انبیا کی کتب کا مطالعہ گناہ ہے۔ روایت کے مطابق ایک دفعہ حضرت عمر نے تورات کا ایک نسخہ عربی میں لکھا اور حضور کے پاس لا کر سنانے لگے جس پر آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ بعض انصار یا ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکر نے آپ کو توجہ دلائی کہ رسول اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تو دیکھ لو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اگر موسیٰ بھی اس وقت ہوتے تو میری ہی پیروی کرتے۔ مگر درحقیقت یہ ایک ضعیف روایت ہے۔ اس کا ایک راوی جابر الجعفی متہم بالکذب ہے جس کے بعد یہ روایت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
بالفرض اس روایت کی کوئی حقیقت ہوتی تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا کہ آخری شریعت کے بعد کسی اور شریعت کی پیروی جائز نہیں۔ اگر موسیٰ بھی اس وقت ہوتے تو میری ہی پیروی کرتے کے الفاظ سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پہلو سے یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی طرف دیکھا جائے چاہے وہ کوئی نبی ہی کیوں نہ ہو۔
مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید کا نزول ہو رہا تھا۔ اس وقت سب سے بڑا کام قرآن مجید کو محفوظ کرنا تھا۔ اس لیے احادیث تک کو لکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسے زمانے میں حضرت عمر جیسے آدمی کا قرآن کے بجائے کسی اور چیز میں لگنا کسی صورت درست نہیں تھا۔ چنانچہ کسی پہلو سے بھی یہ روایت کوئی اصولی ہدایت نہیں دیتی۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں دور صحابہ سے لے کر آج تک اہل علم قدیم صحف سماویہ کو پڑھتے اور نقل کرتے آئے ہیں۔ چنانچہ آج بھی کسی طالب علم کا قدیم کتابوں سے دین حق کی سچائی اور کسی نصیحت اور نیکی کی بات کا نقل کرنا کسی پہلو سے غلط نہیں۔