سابقہ کتب اور مسلمان ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں سے جن عقائد پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا ہے ان میں سے ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ تمام انبیا پر اور ان پر اترنے والی کتابوں پر ایمان لائیں گے۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ سابقہ انبیا اور ان کی تعلیمات کا ذکر کیا اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیا دین لے کر نہیں آئے بلکہ آپ کی ہستی سابقہ انبیا ہی کا تسلسل ہے۔
چنانچہ یہی سبب ہے کہ بالعموم مسلمان دیگر انبیا کا بھی ادب و احترام کرتے ہیں۔ تاہم ان انبیا کی کتابوں کے حوالے سے مسلمانوں میں ایک بڑی غلط فہمی عام ہوچکی ہے۔ وہ یہ کہ ان کتابوں میں جو کچھ ہے وہ غلط ہے کیونکہ ان کتابوں میں مکمل تحریف ہوچکی ہے۔ حالانکہ تاریخی اور واقعاتی طور پر بس اتنی بات ٹھیک ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں اصل تحریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیش گوئیوں اور حضرت ابراہیم کے حرم کعبہ کے تعلق کے حوالے سے کی ہیں۔ اس کے علاوہ جو تحریفات پائی جاتی ہیں وہ غالباً جان بوجھ کر نہیں کی گئی بلکہ انھوں نے اپنی تاریخی داستانوں اور سنی سنائی باتوں کو بطور تفسیر بیان کرنے کے بجائے اپنی اصل کتاب میں داخل کر دیا۔ قرآن مجید کے برعکس جس میں اصل وحی اور تفسیر الگ الگ رہتے ہیں بائبل میں ان دونوں کو ملا دیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ نزول قرآن سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔
چنانچہ مسلمان مفسرین قدیم کتب میں تحریف کی داستان جب سناتے ہیں تو واضح کر دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ نزول قرآن سے پہلے ہوچکا تھا۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئیوں کو ترجمے کے ذریعے سے بدل دیا۔ چنانچہ اس پس منظر میں یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جس وقت قرآن مجید نازل ہورہا تھا یہ دوسری قسم کی ساری تحریفات پچھلی کتابوں میں موجود تھیں۔ مگر اس کے باجود اللہ نے مسلمانوں کو ان کتابوں پر ایمان لانے کا نہ صرف حکم دیا بلکہ ان میں موجود واقعات اور بیانات میں سے کچھ کی تصحیح کرکے اور کچھ کو بعینہٖ بیان کر دیا ہے۔
یہ گویا کہ وہی عمل ہے جسے مسلمان اہل علم نے احادیث کے معاملے میں سر انجام دیا ہے۔ قرون اولیٰ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جھوٹ گھڑا جانے لگا یا آپ کی باتوں میں تحریف و اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلمانوں نے احادیث کو بالکلیہ رد کرنے کے بجائے قرآن مجید کا طریقہ اختیار کیا اور کوشش کی کہ ہر ضعیف، موضوع، منکر روایت کی نشان دہی کر دی جائے۔ جو باتیں علمی معیارات پر ٹھیک اترتی ہیں ان کو بیان کر دیا جائے اور جھوٹے اضافوں کو رد کر کے جہاں اصل بات موجود ہے اسے بیان کرنے کی کوشش کی جائے۔
ضرورت ہے کہ مسلمان یہی رویہ دیگر انبیا کی تعلیمات کے معاملے میں اختیار کریں۔ مسلمانوں کے پاس قرآن و سنت کی وہ کسوٹی موجود ہے جس کی بنیاد پر پرکھ کر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ سابقہ انبیا کی تعلیمات کا کون سا حصہ درست ہے اور کس میں تحریف ہوچکی ہے۔ کس حصے کو لیا جاسکتا ہے اور کسے چھوڑ دینا چاہیے۔
یہاں ایک شخص یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ ہمیں سابقہ انبیا کی تعلیمات کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ ان سے دور ہی رہا جائے۔ ہمارے نزدیک کئی وجوہات کی بنا پر یہ رویہ غلط ہے۔ پہلا یہ کہ مسلمانوں کے اس رویے کی بنا پر چودہ سو برس میں تورات، زبور اور انجیل میں نبی کریم کی متعدد پیش گوئیوں کو بدل دیا گیا ہے۔ اگر مسلمان ان کتابوں کو اپنی کتابیں سمجھ کر محفوظ کر لیتے تو یہود و نصاریٰ پر اسلام کی سچائی ثابت کرنا بہت آسان ہوجاتا۔ آج بھی کوشش کی جائے تو آپ کی کئی پیش گوئیوں کو کتب قدیم سے واضح کیا جاسکتا ہے جو ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔ ایسی ہی ایک پیش گوئی زبور کے حوالے سے اس ماہ کے رسالے میں زیر بحث ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ صرف شریعت محمدی علی صاحبھا السلام ہے جس میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ:
آپ کے علاوہ کسی اور کی پیروی نہ کریں، باقی معاملات میں تو حال یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے یہ صاف حکم دیا تھا کہ ملت ابراہیم (النحل 123:16) اور انبیا سابقہ کے طریقے کی پیروی کریں،(الانعام90:6)۔ عام علما اس حکم سے کیسے بے نیاز رہ سکتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ حکمت بندہ مومن کی متاع گمشدہ ہے۔ اسی اصول پر ہم بزرگوں کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں خواہ وہ ہماری اپنی قوم کے ہوں یا دوسری تہذیب کے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرات انبیا کی ہمارے نزدیک یہ حیثیت بھی نہیں ہے کہ ان کی بات کو ان کی اپنی کتابوں سے لیا جائے جبکہ ان کی متعدد باتیں، دعائیں، اقوال اور واقعات خود قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔
اگلی بات یہ ہے کہ مسلمان اس وقت دور زوال میں ہیں۔ اس کا کوئی ماڈل زمانہ رسالت، نزول قرآن اور عہد صحابہ میں نہیں ملتا۔ نہ قرآن و حدیث میں براہ راست اسے موضوع بنایا گیا ہے۔ بلکہ درحقیقت جتنا موضوع بنایا ہے قدیم اقوام اور قدیم کتب کے حوالے سے بنایا گیا ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل ہی وہ گروہ ہے جو نزول قرآن سے قبل ہمارے جیسے دور زوال سے گزرا تھا۔ چنانچہ اس وقت ان کے ابنیا نے جو کچھ کہا اور جو کچھ سمجھایا اور جس کا اجمالی ذکر خود قرآن میں بھی آیا ہے، اس سے بڑھ کر اس وقت ہمارے لیے کوئی رہنمائی نہیں۔ یہ رہنمائی تفصیلی طور پر صرف قدیم صحف سماویہ ہی میں مل سکتی ہے۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان علما کو قدیم کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور انبیا سابقہ کی تعلیمات کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ اب ہم قرآن و حدیث کے ذخیرے سے محروم نہیں ہوسکتے۔ مگر ہم نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو دیگر انبیا کی تعلیمات میں جو انتہائی قیمتی مواد دعوتی اور تربیتی پہلو سے دستیاب ہے، اس سے ہم ضرور ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔