بد گوئی ۔ پروفیسر عقیل
کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا جملہ واپس نہیں آسکتے۔ ایک اور مثل مشہور ہے کہ زبان کا گھاو تیر کے وار سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اسی لئے بدگوئی کو عام طور پر انسانی معاشروں میں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ یوں تو کسی کی عزت پر حملہ کرنے اور اسے اذیت پہنچانے کے کئی طریقے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ بدگوئی ہی ہے۔
بدگوئی کا مفہوم ہے کسی کے منہ پر اسے برا بھلا بولنا یا کوئی ایسی بات کردینا جس سے اسے اذیت پہنچے۔ عام طور پر لوگ جب کسی کی مخالفت کرتے اور اس پر تنقید کرتے ہیں تو وہ بزدلی کی بنا پر پیٹھ پیچھے خفیہ طریقے سے اس کے عیوب بیان کرتے اور اس کی بے عزتی کے درپے ہوتے ہیں۔ اسے اصطلاح میں غیبت کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات اختلاف اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ لوگ منہ پر ہی مخالف کو برا بھلا کہنے لگ جاتے، اس پر نکتہ چینی کرتے، اس کے عیوب بیان کرتے، اس کی کمزوریوں کو اچھالتے، لعن طعن اور ملامت کرتے، طنزیہ فقرے چست کرتے اور یہاں تک کہ گالی بکنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
یہ رویہ نہ تو دین میں پسندیدہ ہے اور نہ ہی دنیا کے اخلاقی معیار پر پورا اترتا ہے۔ اگر مخالف کمزور ہو تو اس کے نتیجے میں اس کی عزت نفس مجروح ہوجاتی اور نفسیاتی طور پر اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر دونوں مخالفین ٹکر کے ہوں تو دیگر نقصانات کے ساتھ ساتھ بد مزگی رنجش میں اور رنجش دشمنی میں بدل جاتی ہے جس کا انجام انتقام در انتقام ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث میں بدگوئی کی ممانعت:
بدگوئی کے انہی نقائص کی بنا پر اس کی سختی سے قرآن و حدیث میں مذمت کی گئی ہے۔ قرآن میں سورہ الحجرات کی آیت میں واضح طور پر اس رویے کو برا سمجھا گیا اور اس کی ممانعت بیان کی گئی ہے اور باز نہ آنے والے لوگوں کو ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔ "اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ (ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں.” (الحجرات ۴۹:۱۱)
سورہ القلم میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لئے وعید آئی ہے،(القلم ۶۸:۱۱)۔
اسی طرح بد گو انسان کو سورہ الھمزہ میں ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے۔
"ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے”،(الھمزہ ۱۰۴:١)۔
قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی بدگوئی کی واضح طور پر مذمت کی گئی ہے۔
”مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہے اور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔”( جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121)
مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی فرض عبادت قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح بخاری: جلد دوم:حدیث نمبر 440)
یہ احادیث تو مومن کی عزت و آبرو پر عمومی انداز میں حرمت بیان کرتی ہیں۔ دوسری جانب بد اخلاقی اور بدگوئی کی شناعت کی بنا پر اس کے مختلف پہلووں کو احادیث میں موضوع بنایا گیا ہے۔ چنانچہ بدگوئی کا ایک اہم پہلو زبان کا غلط استعمال ہے اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز(زبان)اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز(یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر1421)
اسی طرح بدگوئی کے ایک اہم پہلو یعنی گالی کے بارے میں ایک حدیث میں بیان ہوتا ہے
"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے”۔ ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 47)
ایسے ہی لعنت کرنے کو منع کیا گیا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومن پر لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کی طرح ہے”۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1058)
طعنہ زنی کو بھی ان الفاظ میں منع کیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
”کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا اور میت پر نوحہ کرنا زمانہ جاہلیت کی خصلت ہے”۔(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1082)
اسی طرح فحش گوئی سے پرہیز اور نرمی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نرمی اختیار کرو، کج خلقی اور فحش گوئی سے پرہیز کرو”۔(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 988)