چاند رات، قمری مہینہ اور رمضان ۔ ابویحییٰ
اسلامی عبادات قمری مہینوں کے ساتھ متعلق کی گئی ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال روزے کا رمضان کے مہینے میں فرض ہونا ہے۔ قمری مہینہ تیس یا انتیس دن کا ہوتا ہے جس کا آغاز نئے چاند (ہلال) کے نظر آنے سے ہوتا ہے۔ ہمارے مُلک میں بدقسمتی سے رویت ہلال ایک اختلاف اور جھگڑے کا عنوان بن گیا ہے۔ اس جھگڑے میں وہ حقیقت ہمیشہ نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے جس کی بنا پر عبادات کے لیے نئے چاند پر منحصر قمری مہینے کا انتخاب کیا گیا ہے۔
قمری مہینوں کی پہلی اور سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ شمسی مہینوں کے برعکس مختلف موسموں میں آتے ہیں۔ یعنی شمسی مہینے جولائی میں ہمیشہ گرمی ہوتی ہے، مگر قمری مہینہ رمضان گرمی، سردی، خزاں اور بہار ہر موسم میں آتا ہے۔ یہ چکر کم و بیش بتیس شمسی سالوں میں پورا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس برس اگر جولائی میں روزے آرہے ہیں تو یہ واقعہ بتیس تینتیس برس پہلے ١۹۸۰ میں بھی رونما ہوچکا ہے۔ جبکہ سن ١۹۹٦ میں روزے جنوری کی سردیوں میں، سن ١۹۸۸ میں موسمِ بہار اور سن ۲۰۰۵ میں موسمِ خزاں میں بھی آچکے ہیں۔
روزے کی عبادت کو قمری مہینوں کے ذریعے سے مختلف موسموں میں رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ روزہ رکھ کر مختلف احوال سے گزریں۔ سخت سردی کی بھوک اور حرارت کی کمی، سخت گرمی کی پیاس اور طویل روزے، خزاں کی گلا سکھا دینے والی خشک ہوا اور بہار کا خوشگوار موسم انہیں یاد دلاتا رہے کہ زندگی میں اچھے بُرے حالات کے سرد و گرم اور بہار و خزاں تو آتے رہیں گے مگر بندہ مومن کو ان سے بے نیاز ہوکر ہر حال میں بندگی اور اطاعت کی زندگی گزارنی ہے۔
موسموں کے اختلاف کے علاوہ قمری مہینے کی ایک بڑی اہم خصوصیت اس کا دنیا میں انسانی زندگی کی تعبیر ہونا ہے۔ قمری مہینہ چاند کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ پہلا حصہ نئے چاند سے شروع ہوتا ہے اور دس راتوں تک جاتا ہے جن میں چاند بتدریج بڑھتا ہے۔ مگر ان دس ایام میں رات کی تاریکی چاند پر غلبہ پائے رکھتی ہے۔ اگلے دس ایام گویا چاند کی حکمرانی کے ایام ہوتے ہیں جن میں روشن چاند بدر کامل بنتا ہے اور دس دنوں تک اپنے نورانی وجود سے راتوں کو روشن کیے رکھتا ہے۔ اگلے دس یا نو دن چاند کے زوال کے ہوتے ہیں جن میں چاند بتدریج گھٹنے لگتا ہے۔ مہینہ کے آخر تک چاند اپنا وجود کھو دیتا ہے اور وادیٴ عدم میں اتر کر اپنے پیچھے اماوس کی شبِ تاریک چھوڑ جاتا ہے۔ پھر ایک غیر یقینی کا تاریک سایہ چھا جاتا ہے۔ خبر نہیں کہ اس تاریکی کے پردے سے نیا چاند انتیس دن کے بعد طلوع ہوگا یا تیس کے۔
دیکھا جائے تو یہ انسانی زندگی کی مکمل تعبیر ہے۔ انسانی زندگی بھی چاند کی زندگی کی طرح تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ ارتقا کا ہے جو پیدائش، شیرخوارگی، بچپنے سے گزر کر لڑکپن تک جاتا ہے۔ دوسرا حصہ جو نوجوانی، جوانی اور پختہ عمر سے عبارت ہے انسان کی قوت، جوش اور صلاحیت کا مکمل آئینہ دار ہوتا ہے۔ جبکہ تیسرا حصہ زوال کا ہے جو ادھیڑ عمر، بڑھاپے اور بزرگی کی ان آخری کیفیات سے عبارت ہے جو ضعف و ناتوانی کا انتہائی نشان ہوتی ہیں۔ پھر جس طرح مہینے کا انتیس یا تیس کا ہونا غیر یقینی کیفیت سے دوچار رکھتا ہے اسی طرح بزرگی کی دہلیز سے قبر کا دروازہ کب کھلے یہ بھی ایک غیر یقینی معاملہ ہوتا ہے۔
انسان اگر قمری مہینے کی اس اسپرٹ کو پالیں تو بلاشبہ روزے سے اچھی اس بات کی کوئی یاددہانی نہیں کہ زندگی کی نقدی کس طرح ہر روز ہاتھوں سے غیر محسوس طریقے پر پھسل رہی ہے۔ یہ سمجھ آجائے تو ہم رمضان میں روزے کے ایام گننے کے بجائے یہ گنا کریں گے کہ ہماری زندگی کا پہلا حصہ گزرا ہے، دوسرا گزر رہا ہے یا پھر ہم آخری مرحلہ حیات میں ہیں۔ پھر ہم یہ جان لیں گے کہ جس طرح روزے کے بقیہ ایام گزر جاتے ہیں، جلد ہی میری زندگی کے بقیہ ایام بھی گزر جائیں گے۔ پھر ایک روز جو نجانے انتیس ہو یا تیس؛ آخرت کی زندگی کا وہ چاند طلوع ہوگا جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ یوں ہم رمضان کے دنوں میں روزہ کے دن گن کر خوشی منانے کے بجائے زندگی کے گزرے دنوں کا احتساب کیا کریں گے۔
یہ سوچ اگر عام ہو جائے تو رمضان اور عید کے نئے چاند پر جھگڑنے کی نفسیات ختم ہو جائے گی۔ پھر اہم بات یہ ہوگی کہ رمضان کے آغاز سے ہم روز بیٹھ کر اپنا احتساب کریں گے۔ پہلے دس دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ کہیں ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن کو کھیل کود میں ضائع تو نہیں کر دیا۔ دوسرے عشرے میں جائزہ لیں گے کہ کہیں جوانی کی قوت اور پختگی کی صلاحیت کو ہم نے شہوت پرستی اور ہوس مال کی نظر تو نہیں کر دیا۔ آخری دس دن میں ہم جائزہ لیں گے کہ کہیں ہمارا بڑھاپا مال و اولاد اور اسٹیٹس کے معاملات کی نظر تو نہیں ہو رہا۔ پھر زندگی کے جس حصے میں ہم ہوں گے ہم اپنے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ ہم دنیا کے بجائے آخرت کو اپنا مقصد بنالیں گے۔ تاکہ آخرت کی زندگی کا نیا چاند طلوع ہو تو ہم جنت کی روشن راتیں دیکھیں۔ جہنم کی اماوس زدہ تاریک راتیں ہمارا مقدر نہ بن جائیں.