بادشاہوں کا بادشاہ ۔ ابویحییٰ
حضرت سلیمان علیہ السلام ایک مشہور نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا بادشاہ بنایا تھا۔ جنوں، پرندوں اور ہواؤں کو بھی ان کا تابع فرمان کر دیا تھا۔ وہ پرندوں یہاں تک کہ چیونٹیوں کی باتیں بھی سمجھ لیتے تھے۔ ان کے دربار میں ایسے باکمال لوگ موجود تھے جو ان کے حکم پر ہزار میل دور موجود ایک چیز کو لمحہ بھر میں ان کے دربار میں پہنچا دیتے تھے۔ مگر اس سب کے باوجود وہ لمحہ بھر غافل نہ رہتے اور ہر لمحے رب کا شکر ادا کرتے رہتے۔
قرآن پاک کی سورہ نمل میں یہ ساری تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اسی سورت میں یہ واقعہ بھی بیان ہوا ہے کہ ان کے لشکر میں موجود پرندے ہُدہُد نے ایک روز انہیں یہ اطلاع دی کہ یمن کی قوم سبا پر ایک عورت حکمران ہے جو بڑی شان و شوکت کی مالک ہے۔ البتہ وہ اور اس کی قوم شرک کا شکار ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر معمور تھے کہ شرک کو ختم کر دیں، انہیں جب یہ اطلاع ملی تو آپ نے ہُدہُد کے ذریعے سے اسے ایک خط پہنچوایا کہ فرمانبرداری کے ساتھ فوراً میری خدمت میں حاضر ہو۔
جب ملکہ سبا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔ وہ ایک طاقتور قوم کے سردار تھے اس لیے اپنی ملکہ کو جنگ کا مشورہ دیا۔ اس پر ملکہ سبا نے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقت سے واقف اور بہت سمجھدار خاتون تھی، اپنا وہ تاریخی جملہ کہا جو انسان کی ہزاروں سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ ہے۔ قرآن نے اس کی بات کو اس طرح بیان کیا ہے۔
’’بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں (فتح کے بعد) داخل ہوتے ہیں تو وہاں فساد برپا کر دیتے ہیں اور وہاں کے معززین کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں ۔‘‘(نمل 27:34)
ملکہ سبا کا یہ جملہ بادشاہوں کے اس رویے کو بیان کرتا ہے جو ہمیشہ سے ان کا معمول رہا ہے ۔ بادشاہ جب کسی ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ان کی طاقت کو یہ گوارہ نہیں ہوتا کہ کوئی ان کے خلاف اٹھنے کی جرأت کرے۔ اس لیے جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں اور خاص طور پر وہاں کے عزت دار لوگ، جن کی طرف سے بغاوت کا اندیشہ سب سے بڑھ کر ہوتا ہے، انہیں ذلیل اور بے وقعت بنا کر رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس کائنات کے بادشاہ ہیں۔ وہ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔ ان کی سنت بھی اس معاملے میں دوسرے بادشاہوں سے کچھ مختلف نہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کو کسی عام بستی کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بادشاہ کی حیثیت سے اگر داخل ہوتے ہیں تو دل کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد وہ دل کی اس بستی میں وہی کچھ کرتے ہیں، جو دوسرے بادشاہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں کرتے ہیں۔
وہ اس بستی میں ہر اس تعمیر کو گرا دیتے ہیں جس میں دنیا کی محبت آباد ہوتی ہے۔ وہ ہر اس عمارت کو مسمار کر دیتے ہیں جس میں غیر اللہ کا بسیرا ہوتا ہے۔ وہ ان قلعوں اور چھاؤنیوں کو تاراج کر دیتے ہیں جو نفس و شیطان کی پناہ گاہ ہوتی ہیں۔ وہ خواہشات کے اس محل سرا کو ویران کر دیتے ہیں جس میں دنیا پرستی کا ڈیرا ہوتا ہے۔ وہ دل کی دنیا کے ہر عزت دار کو اس طرح ذلیل و رسوا کرتے ہیں کہ وہ کبھی سر اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مال و دولت، عزت و شہرت، جمال و کمال، آسائش و زیبائش کے وہ بت جن کی پرستش ہر دل میں کی جاتی ہے، اس بستی میں خدائے ذوالجلال کی دہشت سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
اس کے بعد انسان چاہے سلیمان علیہ السلام کی طرح کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، دنیا میں ہر طرف سے گھرا ہی کیوں نہ ہو، اس کا دل خدا کی جاگیر بن جاتا ہے۔ اس مفتوحہ دل میں ہر طرف خدا کی عظمت کا راج ہوتا ہے۔ اسی کی بڑائی کے نغمے گائے جاتے ہیں۔
یہی تاراج دل ٹوٹا ہوا دل ہے ۔ ۔ ۔ یہی وہ دل ہے جو آج نایاب ہو چکا ہے۔