فکر کا تضاد ۔ ابویحییٰ
جاوید اختر صاحب ہندوستان کے ایک معروف شاعر ہیں جن کی وجہ شہرت بالی وڈ کے کہانی نویس اور نغمہ نگارکی ہے۔ ہندوستان کی متعدد سپر ہٹ فلمیں اور گانے انھی کے ذہن کی تخلیق ہیں۔ وہ ایک دانشور بھی ہیں اور ایک پکے ملحد بھی۔ دور حاضر میں دانشورانہ روایت کی کمی اور اپنی فلمی شہرت کی وجہ سے جاوید اختر صاحب دانشورانہ موضوعات پر بھی گفتگو کرتے ہیں اور لوگ ان کی باتوں کو بہت توجہ سے سنتے ہیں۔
پچھلے دنوں ان کا ایک انٹرویو نظر سے گزرا جس میں انھوں نے پورے وثوق کے ساتھ یہ بات بیان کی تھی کہ کسی بچے کو اگر کسی قسم کی مذہبی تربیت ابتدائی اٹھارہ سال تک نہ دی جائے اور پھر اسے تمام مذاہب کا تعارف کرایا جائے تو وہ کسی مذہب کو قبول نہیں کرے گا۔ انھوں نے انٹرویو میں یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ مذہب چونکہ بچپن ہی سے سکھا دیا جاتا ہے، اس لیے ساری زندگی اس کا زندگی سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔
جاوید صاحب سے اسی انٹرویو میں یہ سوال کیا گیا کہ جس طرح مسلمان بچوں کو شروع ہی سے کان میں اذان دی جاتی ہے، کیا انھیں بھی کمیونسٹ پارٹی کے نظریات گھول کر پلائے گئے تھے؟ انھوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایسا ضرور ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد کمیونسٹ پارٹی کے ممبر اور والدہ بھی فری تھنکر تھیں۔ مزید یہ کہ کمیونسٹ پارٹی کا لٹریچر ان کے گھر پر ہوتا تھا جسے وہ ابتدا ہی میں پڑھ گئے تھے۔
یہ اس تضاد کی ایک مثال ہے جس کا شکار خدا کا انکار کرنے کے بعد ایک انتہائی ذہین انسان بھی ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کے مذہب پر رہنے کی وجہ پچپن کے اثرات بتاتا ہے اور اپنے ملحد ہونے کے معاملے میں یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا آبائی مذہب جو اسے سکھایا گیا وہ انکار خدا تھا۔