گولی ماردوں گا ۔ ابویحییٰ
ایک پرانا لطیفہ ہے جس میں بیان کیا جاتا ہے کہ دو افراد میں جھگڑا ہوجاتا ہے۔ جھگڑے کے دوران میں ایک فریق غصے میں کہتا ہے کہ وہ دوسرے کو گولی مار دے گا۔ سامنے والا اسے طعنہ دیتا ہے کہ تو بزدل گولی کیا مارے گا۔ یہ سن کر پہلا شخص گھر میں جاتا ہے کہ اپنی بندوق نکالے۔ لیکن اس کی بیوی پہلے ہی اس کی بندوق چھپا چکی ہوتی ہے تاکہ خون خرابا نہ ہو۔ اسے بندوق نہیں مل پاتی، البتہ گولیاں مل جاتی ہیں۔ وہ جھوٹا اور بزدل کہلانے کے طعنے سے بچنے کے لیے یہی گولیاں لے کر باہر آتا ہے اور سامنے والے پر مارتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لے، مار دی گولی۔
یہ حقیقت ہے کہ گولی مارنا ایک جان لیوا کام ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بندوق کے بغیر گولی ایک معمولی کنکر اور گولی کے بغیر بندوق ایک لاٹھی کے سوا کچھ نہیں۔ یہی معاملہ اسلامی عبادات اور خاص کر نماز کا ہے۔ نماز شیطان کو قتل کرنے کا سب سے موثر ہتھیار ہے جو ہمیں دیا گیا ہے۔ اس کی بندوق اس کی شریعت اور اس کی گولی اس کی روح ہے۔ جب نماز کو شریعت کے مقرر کردہ قاعدے کے مطابق حفظ و دوام کے تقاضے نبھاتے ہوئے اور اس کی روح یعنی یاد الٰہی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو یہ زندگی سے شیطان اور گناہ دونوں کو دور کر دیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں نماز کی شریعت بدعتوں سے آلودہ اور فقہی موشگافیوں سے بوجھل اور اس کی روح سرے سے مفقود ہوچکی ہے۔ ہم صرف اس بنیاد پر مسجد الگ کر دیتے ہیں کہ اقامت پر کھڑا کس وقت ہونا ہے۔ ہم پانچ وقت وہ نمازیں پڑھتے ہیں جن میں پڑھے جانے والے ایک لفظ کا مطلب ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ہم ہر نماز میں رکعتوں کی کثرت کر دیتے ہیں مگر تکبیر سے لے کر سلام تک ہمیں یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کیا کہا اور کیا کیا ہے۔ ایسی نمازیں بغیر بندوق کی گولی اور بغیر گولی کی بندوق کے سوا کچھ نہیں ہیں۔