چنگیز خان کی ٹانگ ۔ ابویحییٰ
چنگیز خان (1227 تا 1158) نے اپنی زندگی کا آغاز منگولیا کے ایک قبائلی سردار کے طور پر کیا اور پھر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بنی۔ وہ ایک انتہائی کامیاب جرنیل تھا جس کی تربیت یافتہ فوج نے یورپ اور ایشیا کی کم و بیش ہر سلطنت کو شکست دی۔ اس کے ساتھ وہ ایک انتہائی سفاک فاتح تھا جس نے مفتوحہ علاقوں میں قتل و غارتگری، عصمت دری اور تباہی کی وہ داستان لکھی جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اپنے زمانے کی دنیا پر بربادی کو مسلط کرنے والا یہ سفاک حکمران سڑسٹھ برس کی عمر میں شکار کرتے ہوئے گھوڑے سے گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ دنیا بھر کا مال و دولت اس کی ٹانگ کو ٹھیک نہیں کرسکا اور یہی تکلیف آخرکار اس کی موت کا سبب بن گئی۔
اس کے برعکس موجودہ دور میں ہر روز دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کی ٹانگ، ہاتھ اور دیگر ہڈیاں ٹوٹتی ہیں اور ڈاکٹر سرجری کے ذریعے سے ان کو دوبارہ جوڑ کر لوگوں کو معمول کی زندگی پر بحال کر دیتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ دورِ جدید کے انسان کو نجانے کتنی ایسی سہولتیں اور آسانیاں میسر ہیں جو زمانہ قدیم کے سب سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھیں۔ انتہائی تیز رفتار اور آرام دہ سواریاں، راتوں کو دن کی طرح روشن کر دینے والی بجلی، کمیونیکیشن کا جدید نظام اور علاج معالجے میں ناقابل یقین ترقی اس کی چند مثالیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دورِجدید میں پیدا ہونے والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی عنایتیں اتنی زیادہ ہیں کہ زمانہ قدیم کے لوگ ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کسی انسان میں اللہ کی عنایتوں کا یہ احساس پیدا ہوجائے تو وہ سراپا شکر بن کر زندگی گزارے گا۔ شکوے، شکایت اور ناشکری کا کوئی کلمہ کبھی اس کی زبان سے نہیں نکلے گا۔