سیل اور ڈسکاؤنٹ ۔ ابویحییٰ
آج کل مہنگائی کے ہاتھوں ہر شخص پریشان ہے۔ آمدنی کے ذرائع محدود اور ضروریات زندگی بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی جگہ سیل یا ڈسکاؤنٹ پر اشیائے ضرورت مل رہی ہوں تو انھیں نسبتاً کم قیمت پر خرید لیا جائے۔ انسان چونکہ فائدہ پسند مخلوق ہے، اس لیے کھاتے پیتے لوگ بھی ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں کم پیسوں میں زیادہ چیزیں خریدنے کے لیے سیل اور ڈسکاؤنٹ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی جنت بھی ایک سودا ہے۔ اس کی بھی ایک قیمت ہے جو ہر اس شخص کو دینا لازمی ہے جو اس کا طلبگار ہے۔ مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جنت کے اس سودے میں بھی کئی طرح کے ڈسکاؤنٹ دیے گئے ہیں۔ یعنی کم عمل کرکے زیادہ بدلہ حاصل کرلیا جائے۔ اس کے لیے بس شرط یہ ہے کہ دین کی ترجیحات کا علم ہو اور انسان اپنی نفسیات کو اس کے مطابق ڈھال دے۔
مثلاً حسن خلق ایک بہت آسان عمل ہے، مگر جنت کا سودا اس معمولی قیمت کے عوض بھی دستیاب ہے۔ لوگ شب بیداری اور روزوں کی کثرت میں جنت کی قیمت دیتے ہیں اور ایک عقلمند انسان صرف فرائض ادا کرکے حسن خلق کے ذریعے سے جنت کے اعلیٰ مقامات کا سودا خرید سکتا ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرنا گرچہ خود بہت زیادہ پیسوں کا مالک نہ ہو، لوگوں کی برائی کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرنا، مشکل حالات میں دین کے تقاضوں کو نبھانا اور سب سے بڑھ کر اپنے فرقہ وارانہ تعصبات سے اوپر اٹھ کر حق کو قبول کرنا وہ چیزیں ہیں جو کرنے میں بہت معمولی ہیں لیکن ان سب کا بدلہ جنت کے بلند درجات ہیں۔
جنت کی یہ ڈسکاؤنٹ اسکیم ہر شخص حاصل کرسکتا ہے۔ بس اپنی نفسیات کو تھوڑا سا کنٹرول کرکے اپنے رویوں کو بدلنا اس کام کی شرط ہے۔