شکر گزاری ۔ ابویحییٰ
حضرت داؤد علیہ السلام اورحضرت سلیمان علیہ السلام کا شمار ان انبیا میں ہوتا ہے جن کو پیغمبری کے ساتھ بادشاہت بھی ملی۔ جبکہ حضرت داؤد کو زبور جیسی کتاب بھی ملی جس میں موجود بندگی اور حمد کے مزامیر کے متعلق قرآن مجید بتاتا ہے کہ جب وہ اللہ کی حمد کرتے تو پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ شامل ہوکر اللہ کی پاکی اور تعریف بیان کرتے تھے۔
ان دو عظیم پیغمبروں کا اقتدار عام بادشاہوں کا اقتدار نہ تھا بلکہ ان دونوں کی داستان انتہائی غیرمعمولی ہے۔ حضرت داؤد نوجوانی میں بکریاں چراتے تھے۔ ان کی قوم ایک جنگ میں مشرکوں کے ساتھ برسرپیکار تھی کہ وہ اپنے بھائیوں کو کھانا دینے میدان جنگ آپہنچے۔ یہ وہ وقت تھا کہ مشرکوں کا سردار جالوت ان کی قوم کو میدان جنگ میں کھڑا ہوکر للکار رہا تھا، مگر کوئی اس سے مقابلے کی ہمت نہ کرسکا۔
یہ دیکھ کر حضرت داؤد کی غیرت جوش میں آئی اور وہ بغیر نیزے تلوار کے اس کے مقابلے میں آگئے۔ انھوں نے غلیل کی طرح پتھر پھینکنے والے معمولی سے ہتھیار سے تاک کر ایک پتھر اس کی پیشانی پر اس طرح مارا کہ سر تا پاؤں لوہے میں غرق جالوت فوراً مر گیا۔ یوں وہ قوم کی آنکھ کا تارا بن گئے اور بادشاہ نے اپنی بیٹی سے ان کی شادی کر دی۔
بادشاہ بننے کے بعد حضرت داؤد نے پہلی دفعہ بنی اسرائیل کی ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو ان کے لیے اس طرح نرم کردیا تھا کہ اس کی مدد سے انھوں نے کشادہ زرہیں تیار کرکے کراپنی فوجوں کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ کیونکہ ان زرہوں کو پہن کر فوجی تیزی سے حرکت کرنے کے قابل رہتے تھے۔ یوں وہ مخالفین کو مار سکتے تھے، مگر وہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتے تھے۔
حضرت داؤد کے چالیس سالہ دور اقتدار کے بعد حضرت سلیمان تخت نشین ہوئے اور چالیس برس تک ہی حکومت کی۔ ان کے دور میں شام، فسلطین، شرق اردن اور اردگرد کے تمام علاقوں میں ان کا اقتدار قائم ہوگیا۔ ان کے بادبانی جہاز بحر روم اور بحراحمر پر راج کرتے تھے۔ ان کی خدمت کے لیے غیر معمولی انسانوں، جنوں اور پرندوں کے لشکر موجود رہتے۔ وہ پرندوں اور جانوروں کی گفتگو تک سمجھ سکتے تھے۔ ان کے دور میں ہیکل سلیمانی اپنی تمام تر عظمت کے ساتھ تعمیر ہوا جو مسجد الحرام کے بعد دوسری مسجد تھی۔
تقریباً ایک صدی پر محیط اس عظیم اقتدار کا خصوصی وصف یہ تھا کہ دو نوں باپ بیٹے اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار تھے۔ دل سے خدا کی بڑائی کا اقرار، زبان پر اس کی عظمت، محبت اور شکر گزاری کے چرچے، ذہنی، جسمانی اور مالی انعامات کو اس کے بندوں پر خرچ کرنا، خدا کے دین کی خدمت اور نصرت، اللہ کی بندگی اور عبادت ان کی زندگی کا معمول تھی۔ ان سب کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں مسلسل رجوع، استغفار، دعا و زاری اور شکر گزاری ان کی زندگی تھی۔
یہی شکر گزاری کا اصلی ماڈل ہے جو ہر انسان کو دو باتیں بتاتا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری، دل و دماغ، قول و فعل اور اپنے تمام تر وجود کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ شکرگزاروں کو اللہ تعالیٰ کیسے اسی دنیا میں نوازتے ہیں۔
اس بات کوسمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ شکر گزاری کو مذکورہ بالا تمام پہلوؤں سے ادا کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ نعمت کی یہ تاثیر ہوتی ہے کہ وہ جیسے ہی ملتی ہے، انسان میں غفلت اور مزید پانے کی حرص پیدا کرتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کو شکر گزاری کے تقاضے پورے کرنے سے روک دیتی ہیں۔ مگر ان عظیم پیغمبروں نے یہ سکھایا ہے کہ انسان اللہ سے مخلص ہو تو بادشاہ بن کر بھی غافل نہیں رہتا۔ یہی وہ شکر گزاری ہے جو کل انسان کو جنت کی ابدی بادشاہی میں لے جانے کا سبب بنے گی۔