مضامین قرآن (73) اخلاقی طور پر مطلوب و غیر مطلوب رویے : تکبر اور حسد ۔ ابویحییٰ
تکبر یا اپنی بڑائی کا احساس انسانوں کے لیے ایک انتہائی غیر مطلوب رویہ ہے، مگر انسانوں کی دنیا میں یہ رویہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ تکبر میں مبتلا انسان خالق اور مخلوق دونوں کے معاملے میں انتہائی غلط رویہ اختیار کرتا ہے۔ خالق کے مقابلے میں یہ کفر اور انسانوں کے معاملے میں یہ ظلم، سرکشی اور فساد کو جنم دیتا ہے۔ ان میں سے ہر چیز انسان کو جہنم میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید تکبر کی سخت ترین مذمت سے بھرا ہوا ہے۔
تکبر صرف خدا کو زیبا ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفات العلی، العظیم، الاعلی، الکبیر، المتعال اور المتکبر کے اسما کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ یہ تمام صفات انسانوں کو یہ حقیقت یاد دلاتی ہیں کہ اس کائنات کا خالق و مالک اپنی ذات میں بلند، بے پناہ عظمت والا، سب سے بلند و اعلی، سب سے بڑا، سب سے برتر اور ہر طرح کی بڑائی کا مالک ہے۔ یہ محض قرآن مجید کا بیان ہی نہیں ہے بلکہ جس کائنات میں انسان کھڑا ہوا ہے وہ اپنے خالق کا اعتراف اسی طرح کرتی ہے۔ سورج، چاند، تارے، زمین، آسمان اور ان جیسی ان گنت مخلوقات کا خالق کتنا عظیم و بلند ہوگا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ قرآن مجید نہ صرف ان صفات الٰہی سے خدا کی کبریائی کو بیان کرتا ہے، بلکہ جگہ جگہ اس کائنات پر غور و فکر کی دعوت دے کر انسانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ اس کائنات کا خالق کتنا بلند و عظیم ہوگا۔
قرآن مجیدیہ بھی واضح کرتا ہے کہ خدا کو اتنا بلند و عظیم بنانے والی چیز اس کی غیر محدود طاقت، اس کی بے پناہ قدرت اور اس کا لامحدود علم ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کو ان میں سے کوئی بھی عارضہ لاحق نہیں ہوسکتا جو مخلوق کو کمزور کر دیتا ہے۔ وہ موت، فنا، نیند، اونگھ، تکان جیسی ہر کمزوری سے پاک ہے۔ وہ کسی کی مدد کے بغیر زندہ اور تنہا اپنے سہارے پر قائم ہے۔
انسان کا تکبر
ایک طرف خدا کی یہ قادر مطلق ہستی ہے جو بجا طور پر اپنی برتری کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف انسان ہے جو عاجز مطلق اور محتاج مطلق ہے، مگر اپنی برتری اور بڑائی کے دھوکے میں پڑا رہتا ہے۔ یہ عدم سے وجود میں آتا ہے۔ ایک قطرہ ناپاک سے جنم لیتا ہے۔ ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ بے بسی اور فریاد کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ ضرورتوں اور ناتوانیوں کے بیچ اپنا بچپن اور لڑکپن گزارتا ہے۔ موت سے قبل ایک دفعہ پھر اس کے اعضا و قویٰ جواب دے جاتے ہیں۔ سماعت و بصارت اور حافظہ کمزور ہوجاتے ہیں۔ دانت جھڑ جاتے اور بال سفید ہوکر گر جاتے ہیں۔ تن لاغر ہوجاتا اور جلد مرجھا جاتی ہے۔ آخرکار موت کے ہاتھوں شکست کھا کر فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔
اس انسان کو نوجوانی سے لے کر ادھیڑ عمر تک کچھ طاقت ملتی ہے۔ علم و ہنر کی کچھ آہٹ بھی وہ پالیتا ہے۔ محنت کر کے گھر بار بھی بنا لیتا ہے۔ خدا دے تو دولت،، مقام اور سرداری سے بھی نوازا جاتا ہے۔ مگر اس میں کوئی بیماری آجائے یا کسی طاقتور سے سامنا ہوجائے تو یہ انسان بے بس ہوجاتا ہے۔ کھانا اور پانی نہ ملے تو دو دن میں زمین پر آجاتا ہے۔ نیند پوری نہ ہو تو دن کرنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ گویا بادشاہی اور طاقت کی یہ ساری دکان ادھار پے چلتی ہے اور ہر چیز عارضی ہوتی ہے۔ مگر اس پر بھی یہ انسان خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ وہ زمین پر اکڑ کر چلتا ہے گویا زمین کو پھاڑ ڈالے گا یا پہاڑ سے اوپر اٹھ جائے گا۔ لوگوں سے بلند آواز سے بات کرتا ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ حق کا انکار کرتا ہے اور پیغمبروں کے مقابلے میں سرکشی کرتا ہے۔ فرعون کی طرح خود کو رب اعلیٰ کہتا اور عالی مرتبت سمجھتا ہے۔ اور کبھی قارون کی طرح عارضی مال و دولت پاکر گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کبھی عاد جیسی اقوام کی طرح اپنی طاقت پر مغرور ہوکر اس خدا کو بھول جاتا ہے جس نے انھیں بنایا۔ کبھی قوم نوح کی طرح اپنی فضیلت کے وہم میں مبتلا ہوکر اپنے پیغمبر کا کفر اور ان کے ساتھیوں کی تحقیر کرتا ہے۔ یہ سب دراصل اپنے روحانی آقا ابلیس کی پیروی کرتے ہیں جس کا اصل جرم ہی یہی تھا کہ اس نے حضرت انسان کے مقابلے میں خود کو برتر سمجھا تھا اور خدا کے حکم کا منکر ہوگیا تھا۔
تکبر اور حسد اور ان کا انجام
تکبر صرف اپنی ذات ہی میں ایک برائی نہیں بلکہ انسان کے اندر دیگر غیر محمود اوصاف بھی پیدا کرتی ہے۔ اکڑنا، فخر کرنا، شیخی خورہ پن، اپنے مال، طاقت، حسن اور دوسری نعمتوں میں مسرور رہنا جیسی بری عادات تکبر ہی کا نتیجہ ہیں۔ مگر اس کا سب سے برا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ انسان کو کسی اور کی فضلیت کے اعتراف سے بھی روک دیتا ہے۔ اس کا پہلا اظہار ابلیس کی طرف سے ہوا تھا جب اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی معاملہ ان یہود کا تھا جن کا خیال تھا کہ آخری نبی ان میں سے آئے گا، مگر جب وہ امیوں میں سے آیا تو اپنی برتری کو مجروح ہوتا دیکھ کر وہ حسد کے مرض کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ حسد دراصل تکبر ہی سے جنم لینے والا مرض ہے جو انسان کو دوسرے فرد یا گروہ کو ملنے والی فضیلت کے نہ صرف انکار پر آمادہ کرتا ہے بلکہ یہ حسد انسان کو دشمنی کی اس آگ میں جلاتا ہے جس کے شر سے صرف اللہ ہی پناہ دے سکتا ہے اور اسی سے پناہ مانگنی بھی چاہیے۔
تکبر اور حسد کی یہی وہ خرابی ہے کہ جس کی بنا پر اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ ان امراض میں مبتلا لوگ کبھی راہ راست پر آسکیں۔ ایسے متکبرین کو اللہ تعالی ہدایت نہیں دیتے اور آخرکار ان لوگوں کا انجام یہی ہوتا ہے کہ جہنم ان کا ٹھکانہ بن جاتی ہے۔ یہ لوگ نہ صرف خود جہنم میں جائیں گے بلکہ ہر اس شخص کو بھی جہنم میں لے جانے کا باعث بنیں گے جو ان کی جھوٹی بڑائی کے دھوکے میں آکر ان کے راستے پر چل پڑا اور حق کا انکار کیا۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جو جہنم کے عذابوں کے ساتھ ایک دوسرے کی توتکار کا عذاب بھی چکھیں گے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن مجید نے نہ صرف تکبر کی سخت مذمت کی ہے بلکہ وہ راستہ بھی دکھایا ہے جو جنت کا راستہ ہے۔ یہ راستہ ان لوگوں کا ہے جو زمین پر اپنی بڑائی قائم نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی یہ نیت ان کے دل کا حال ہی نہیں ہوتی بلکہ ان کی چال بھی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ زمین پر اعتدال اور انکسار کی چال چلتے ہیں اوردوسروں سے نرم آواز سے گفتگو کرتے ہیں۔
قرآنی بیانات
”وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، بادشاہ، وہ منزہ ہستی، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، غالب، بڑے زور والا، بڑائی کا مالک۔ پاک ہے اللہ اُن سے جو یہ شریک بناتے ہیں۔“،(الحشر23:59)
”وہ غائب و حاضر کا جاننے والا ہے، سب سے بڑا ہے، سب سے برتر ہے۔“، (الرعد9:13)
”(اُس دن معاملہ صرف اللہ سے ہوگا)۔ اللہ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والا۔ نہ اُس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں کسی کی سفارش کرے۔ لوگوں کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے اور وہ اُس کے علم میں سے کسی چیز کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اُس کی بادشاہی زمین اور آسمانوں پر چھائی ہوئی ہے اور اُنکی حفاظت اُس پر ذرا بھی گراں نہیں ہوتی، اور وہ بلند ہے، بڑی عظمت والا ہے۔“،(البقرہ255:2)
”یہ اِس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور جن چیزوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ سب باطل ہیں اور اِس لیے کہ اللہ ہی برتر ہے، وہ سب سے بڑا ہے۔“،(الحج62:22)
”سو عاد کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر طاقت میں کون ہے! کیا اُنھوں نے سوچا نہیں کہ جس خدا نے اُن کو پیدا کیا ہے، وہ اُن سے طاقت میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہے؟ (اِس طرح بڑے بن بیٹھے) اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔“،(حم السجدہ15:41)
”اِس پر اُس کی قوم کے سرداروں نے، جو منکر تھے، جواب دیا: ہم تو تمھیں اپنے جیسا ایک آدمی ہی دیکھتے ہیں اور ہمارے اندر جو اراذل ہیں، اُنھی کو دیکھتے ہیں کہ بے سمجھے بوجھے تمھارے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ہم نہیں دیکھتے کہ ہمارے اوپر تمھیں کوئی بڑائی حاصل ہے، بلکہ ہم تو تمھیں بالکل جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔“،(ھود27:11)
”(وہی رحمٰن ہے) اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جاہل اُن سے الجھنے کی کوشش کریں تو اُن کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں۔“،(الفرقان63:25)
”پھر کہا کہ تمھارا سب سے بڑا رب تو میں ہوں۔“،(النازعات24:79)
”کہا جائے گا: جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، اُس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ سو تکبر کرنے والوں کا یہ کیا ہی براٹھکانا ہے!“(الزمر72:39)
”ہماری نشانیوں کو جن لوگوں نے بھی جھٹلایا اور آخرت کی ملاقات کا انکار کیا ہے، اُن کے اعمال ضائع ہوگئے۔ اب کیا بدلے میں اُس کے سوا کچھ پائیں گے جو کرتے رہے ہیں؟“،(الاعراف147:7)
”اِس کے جواب میں متکبرین اُنھیں جو دبا کر رکھے گئے، کہیں گے: کیا ہم نے تمھیں ہدایت سے روکا تھا، اِس کے بعد کہ وہ تمھارے پاس آگئی تھی؟ ہرگز نہیں، بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔
دبے ہوئے لوگ متکبرین کو جواب دیں گے: بلکہ تمھاری دن رات کی چالیں تھیں جو یہاں تک لے آئی ہیں، جب کہ تم ہمیں سمجھاتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور اُس کے شریک ٹھیرائیں۔ (پھر) جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو دلوں میں پچھتائیں گے۔ (مگر اُس وقت پچھتانے سے کیا حاصل! ہم اِن منکروں کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے۔ یہ وہی بدلہ پائیں گے جو کرتے رہے تھے۔“،(السبا32-33:34)
”اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔“،(بنی اسرائیل37:17)
”اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ اللہ کسی اکڑنے اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو، حقیقت یہ ہے کہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔“،(لقمان18-19:31)
”اور (ہماری اِس اسکیم میں انسان کے امتحان کو سمجھنے کے لیے) وہ واقعہ بھی اِنھیں سناؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہوگئے، ابلیس کے سوا۔ اُس نے انکار کر دیا اور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا۔“،(البقرہ34:2)
”پر موسیٰ کو اُس کی قوم کے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہیں مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے بڑوں کے ڈر سے کہ کہیں فرعون اُنھیں کسی فتنے میں نہ ڈال دے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون اُس ملک میں بڑا جبار تھا اور اُن لوگوں میں سے تھا جو حد سے گزر جاتے ہیں۔“، (یونس83:10)
”ہرگز نہیں، (یہ اپنی بڑائی پر نہ اِترائیں)، ہم نے ان کو اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے یہ جانتے ہیں“،(المعارج39:70)
”(اُس دن) جو بھلائی لے کر آئے گا، اُس کے لیے اُس سے بہتر بھلائی ہے اور جو برائی لے کر آئے گا تو جنھوں نے برائیاں کی ہیں، اُن کو وہی بدلے میں ملے گا جو وہ (دنیا میں) کرتے رہے۔“،(القصص83:28)
”اور ہر حاسد کے شر سے، جب وہ حسد کرے۔“،(الفلق5:113)