ڈائری کا ایک ورق : امید کا پیغامبر ۔ ابو یحیی
آج 9 نومبر کا دن اور علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ اتوار کی تعطیل کی بنا پر میں گھر ہی میں ہوں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر میں نے اقبال کے کلام کو اٹھایا اور پڑھتا چلا گیا۔ میرے ذہن میں اپنی نوعمری کے وہ ایام تازہ ہوگئے جب میں اسکول سے آکر اقبال کے کلام کا گھنٹوں مطالعہ کیا کرتا تھا۔ بچپن کی عمر بھی کیا عمر تھی، جو چیز ہاتھ آئی پڑھ لی۔ عمران سیریز، ناول اور ڈائجسٹیں جو صرف بالغوں کے مطالعے کی چیزیں سمجھی جاتی تھیں، انہیں گھر والوں سے چھپ چھپ کر پڑھنا، اسکول کے زمانے ہی میں اپنے بڑے بھائی بہنوں کی نصاب کی کتابیں چاٹ ڈالنا، کچھ نہ ملے تو درجنوں دفعہ پڑھی ہوئی کتابوں کو ایک دفعہ اور پڑھ جانا۔ مگر اب کیا زمانہ آگیا ہے، ٹی وی نے عادت ایسی خراب کی ہے کہ مطالعہ کرنا پہاڑ کی چوٹی سر کرنے جیسا مشکل کام لگتا ہے۔
خیر یہی وہ زمانے تھے جب میں اقبال کی کتابیں خرید کر لاتا اور ان کا مطالعہ کرتا رہتا۔ اقبال کے کلام میں زندگی کا جوش اور امید کی جو روشنی تھی وہ آج کے دن تک میرا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اقبال کا زمانہ کیا زمانہ تھا۔ وہ 1877 میں پیدا ہوئے، جب غدر کے بعد ایک پوری نسل مایوسی، شکست، غلامی، ذلت اور محرومی کے احساس میں پل کر جوان ہوچکی تھی۔ ایک طرف مذہبی لوگ تھے جنہوں نے قدیم دینی تعلیم کے فروغ کو اپنا مشن بنا کر انگریزوں کے نظام سے بالکل لاتعلقی کو ہر مسئلہ کا حل سمجھ لیا تھا اور دوسری طرف سرسید کی وہ راہنمائی تھی، جس میں جدید تعلیم کے ساتھ انگریزوں کی مکمل پیروی ہر بند تالے کی چابی سمجھ لی گئی تھی۔
ایسے میں اقبال اٹھے۔ وہ دین کی محبت سے سرشار اور جدید تعلیم کے اسلحے سے لیس تھے۔ امت کی تاریخ، معاصر افکا ر، ملکی سیاست اور بین الاقوامی حالات پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے جان لیا تھا کہ قومی راہنمائی کے یہ دو دھارے یعنی جدید دنیا سے لاتعلق ہوکر اختیار کی جانے والی جامد مذہبیت اور انگریزوں کی مکمل پیروی کا راستہ، دونوں ہی غلط ہیں۔ اس سے بڑھ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ایک مایوس اور ذہنی شکست خوردگی کے احساس میں مبتلا قوم دنیا میں کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ اقبال کی پوری فکر اور ان کا کل پیغام اصل میں انہی دو چیزوں کے اردگرد گھومتا ہے۔
انہوں نے شاعری کو اپنی زبان بنایا اور امید کے دیئے روشن کرنا شروع کر دیے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مایوس کن حالات کے اعتراف کے ساتھ بات شروع کرتے اور پھر بتدریج ذہنوں میں امید کے چراغ جلاتے چلے جاتے۔ وہ ہلال عید کو دیکھ کر قوم کا مرثیہ پڑھتے ہوئے کہتے ہیں:
اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے
شمع و شاعر نامی شاہکار نظم کا آغاز بھی اسی مایوس کن لہجے میں ہوتا ہے۔
وائے ناکامی متاع کا ر واں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ مایوس کن لہجہ جب اپنے عروج پر پہنچتا ہے تب وہ دلوں میں امید کی شمع روشن کرتے ہیں۔
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
سرزمین ہند کے مسلمان جنہیں ہندو اور انگریزوں کے ہاتھوں اپنے مٹ جانے کا اندیشہ تھا، وہ یہ کہہ کر ان کی امید زندہ کرتے ہیں:
بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
پھر مستقبل کا نقشہ اپنے وجدانی اسلوب میں اس طرح کھینچتے ہیں کہ مردہ سے مردہ دل بھی زندگی کی حرارت سے جاگ اٹھتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ ٔخورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ تو حید سے
بانگ درا کا یہی انداز بال جبریل میں پہنچتا ہے۔ مسجد قرطبہ کے آئینے میں وہ بندۂ مومن کو اس کے جلال و جمال، شوق و محبت اور بلند پروازی کی مطلوبہ صفات دکھاتے ہیں۔ اسے اپنے ان خوابوں میں شریک کرتے ہیں جو قرطبہ کے دریائے کبیر کے کنارے انہوں نے دیکھے تھے۔
آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب
آج بھی ہماری قوم کو سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ امید ہے۔ سردست اس قوم کے اعصاب پر وہ لوگ مسلط ہیں جو صرف مایوسی کی زبان بولنا جانتے ہیں جبکہ ہماری ضرورت مثبت سوچ رکھنے والے فکری راہنما ہیں۔
آج ہمارے حالات اس وقت سے کہیں بہتر ہیں جب پورا عالم اسلام یورپی طاقتوں کا غلام تھا۔ جب جہالت اور غربت کے آسمان پر غلامی کی سیاہ رات طاری تھی۔ جب دین و دنیا کے علوم میں ہرجگہ جمود چھایا ہوا تھا۔ آج تو حالات بہت بہتر ہیں ۔غلامی کے سائے چھٹ چکے ہیں اور علم کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ اگر آج چند لوگ یہ طے کرلیں کہ ہر طرح کے حالات میں امید کے چراغ بجھنے نہیں دیں گے تو امت کا دربدر بھٹکتا یہ قافلہ اس سفر کا انجام پاسکتا ہے جو اقبال کی بانگ درا کے ساتھ ایک صدی قبل شروع ہوا تھا۔