سونا اور عاقبت اندیشی ۔ ابویحییٰ
سونا ہر دور میں انسانوں کے لیے ایک بڑی قیمتی چیز رہا ہے۔ اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر سونا زیورات کے طور پر استعمال ہونے والی سب سے نمایاں دھات ہے۔ اپنی کم نہ ہونے والی قدر کی بنا پر ایک طویل عرصے تک کرنسی کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے۔ جب کرنسی نوٹ عام ہوا تو سونے کا یہ استعمال ختم ہوگیا۔ تاہم کرنسی نوٹ سوائے ایک کاغذ کے ٹکڑے کے علاوہ کچھ نہیں، اس لیے کرنسی نوٹ کے زرِ ضمانت کے طورپر حکومتیں اپنے پاس سونے کے ذخائر بڑی تعداد میں رکھا کرتی تھیں۔ بیسویں صدی میں آہستہ آہستہ زر ضمانت کا یہ مقام بڑی حد تک امریکی ڈالر کے ذخائر کو حاصل ہوگیا۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر یہ صورتحال بدلنا شروع ہوئی۔ امریکی معیشت کی کمزوری کی بنا پر ڈالر کمزور ہوا۔ چنانچہ حکومتوں نے اپنے تحفظ کے لیے ایک دفعہ پھر اپنے محفوظ مالی ذخائر کو سونے کی شکل میں رکھنا شروع کیا۔ یوں سونے کی طلب اور نتیجے کے طور پر اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور تادم تحریر ہورہا ہے۔ اس صورتحال پر وہ لوگ تو بہت پریشان ہیں جو اپنے بچوں کی شادی کے لیے زیورات خرید رہے ہیں، مگر وہ لوگ جو عاقبت اندیشی (Foresightedness) کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچیوں کے پیدا ہونے پر ان کے لیے سونا خرید کر رکھ لیتے ہیں بہت خوش ہیں۔ کیونکہ انہوں نے بہت کم قیمت پر سونا خریدا تھا اور آج اس کی قدر و قیمت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ عاقبت اندیشی بہت اچھی چیز ہے۔ مگر بہتر ہے کہ اس کا مظاہرہ اس دن کے لیے بھی ہونا چاہیے جو ہر انسان کی زندگی میں بہت جلد آنے والا ہے۔ یہ دن پروردگار عالم کے حضور پیش ہونے کا دن ہے۔ اور قرآن یہ کہتا ہے کہ اُس دن اگر انسان کے پاس زمین بھر سونا ہو اور وہ اسے دے کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے خود کو بچانا چاہے گا، تب بھی وہ نہیں بچ سکتا۔ اس روز بچے گا وہی جس کے پاس ایمان و عمل صالح، اخلاق و عبادت، بندوں کی خدمت اور خدا کے دین کی نصرت کا سرمایہ ہوگا۔ اپنے بچے بچیوں کے لیے چند گرام سونا خرید کر رکھنے والوں کو یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیے۔