ایمان کی آزمائش ۔ ابویحییٰ
قرآن میں بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جنت ایمان اور عمل صالح کا بدلہ ہے۔ صحابہ کرام تک جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی یہ دعوت پہنچائی تو اس کے جواب میں وہ ایمان لے آئے اور اپنی زندگی کو اعمال صالح کے مطابق ڈھالنے لگے۔ آج بھی اگر کوئی غیرمسلم جب اسلام قبول کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا امیدوار بننا چاہتا ہے تو ایمان اور عمل صالح کی شرائط پوری کرنا اس کے لیے لازم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں، وہ ایمان کی شرط سے ہمیشہ خود کو استثنا سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے ایمان کا مرحلہ ایک مسلم گھرانے میں پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے خود ہی طے کر دیا ہے۔
قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان خدا کو اپنی عبادت، وفاداری اور آخرت کی کامیابی کو اپنا مقصدِ زندگی بنا لینے کا نام ہے۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لیے تنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو درست سمجھنا ایمان کا دوسرا بنیادی جز ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کلمہ طیبہ کا زبانی ورد ایمان کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یا بہت ہوا تو سابقہ اعمال سے توبہ کے بعد تجدیدِ ایمان (renewal of faith) کا ایک تصور کہیں مل جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایمان سے متعلق تو ہیں لیکن اصل ایمان نہیں ہیں۔
اصل ایمان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ صحابہ کرام کو سامنے رکھا جائے۔ صحابہ کرام ؓ ایک ایسی سوسائٹی کے فرد تھے، جہاں مذہب کے نام پر ایک عقیدہ موجود تھا۔ اس عقیدے سے وابستہ مذہبی لوگ کوئی اور نہیں حرم پاک کے متولی اور اولاد ابراہیمؑ میں سے تھے۔ انہیں اپنی سچائی پر اتنا یقین تھا کہ جب یہ لوگ جنگ بدر کے موقع پر مکہ سے روانہ ہوئے تو حرم پاک کے پردے پکڑ کر یہ دعا کی کہ اے اللہ اگر یہ دین اسلام سچاہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے۔ حضورؐ نے تیرہ برس تک ان لوگوں کے سامنے ایمان کی دعوت رکھی۔ دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ ان کی عبادت، محبت اور وفاداری کا تنہا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ اللہ کی عبادت کے لیے میرے طریقے کی پیروری کریں گے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حق دار ہوں گے۔ صحابہ نے اس دعوت کو قبول کیا اور ہر طرح کی قربانی دے کر اسلام کو اختیار کرلیا۔
صحابہ کرامؓ کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ایمان اصل میں ایک فکری دریافت ہے۔ یہ رائج نظریات، معاشرتی تصورات اور باپ دادا کے عقائد پر غور کر کے صحیح بات کو اختیار کر لینے کا نام ہے۔ یہ انسانوں کے اور مخلوق کے بجائے خدا کی بڑائی میں جینے کا نام ہے۔ یہ مذہبی اکابرین اور مسلم رہنماؤں کے بجائے اللہ کے پیغمبر کو اپنا اصل رہنما سمجھنے کا نام ہے۔ عمل صالح اگر عمل کی آزمائش ہے تو ایمان فکر کی آزمائش ہے۔ جنت اگر پہلے کے بغیر نہیں مل سکتی تو دوسرے کے بغیر بھی اس کا حصول ممکن نہیں۔
عمل صالح کی طرح ایمان کی آزمائش آج تک جاری ہے۔ غیرمسلموں کو یہ آزمائش اگر ان کے آبائی مذہب کی بنا پر پیش آتی ہے تو مسلمانوں کو یہ آزمائش ان کے آبائی فرقے کی طرف سے پیش آتی ہے۔ آج مسلمان جب آنکھ کھول کر اردگرد دیکھتا ہے تو وہ خود کو کسی نہ کسی مذہبی گروہ سے وابستہ پاتا ہے۔ ایسا شخص اپنے ماحول کے اثر یا کسی دعوت کی بنیاد پر اگر دینداری اختیار کرتا ہے تو اصل میں یہ اس کی جماعت یا اس کا فرقہ ہوتا ہے جو اس کے گرد اپنے شکنجے کو سخت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ بظاہر اللہ رسول اور آخرت کے الفاظ بول رہا ہوتا ہے مگر اس کی اصل وابستگی اپنے فرقہ، اپنی فکر اور اپنے بڑوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے لیے اپنے طریقہ اور اپنی فکر کے سوا ہر دوسری چیز غلط ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے فرقہ کو نجات یافتہ فرقہ اور باقی لوگوں کو جہنمی سمجھتا ہے۔ اس کے لیے قابل فخر شناخت وہ نہیں ہوتی جو اسلام نے دی ہے یعنی مسلم بلکہ وہ اپنے فرقہ کے حوالے سے ہی اپنا تعارف کرانا قابل فخر سمجھتا ہے۔
یہی وہ صورتحال ہے جو آج کے ایک مسلمان کے لیے ایمان کے اس امتحان کو ازسرنو زندہ کر دیتی ہے جس سے صحابہ کرام کو واسطہ پڑا یا آج کے کسی غیرمسلم کو واسطہ پڑتا ہے۔ اس میں کامیابی کا طریقہ بھی وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا کہ اپنی ہر وفاداری کا رخ اللہ اور اس کے رسول کی طرف کرلیا جائے۔ تمام مسلمان اہل علم کو اپنا رہنما سمجھا جائے۔ ہر شخص کی بات کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور جس کی بات قرآن و سنت سے قریب لگے اسے اختیار کرلیا جائے۔ یہ تو ممکن نہیں ہوسکتا ہے کہ ہر آدمی دین پر تحقیق شروع کر دے، لیکن جب کبھی اپنے کسی دینی عمل یا عقیدے یا فکر پر کوئی سوال پیدا ہوجائے تو تعصب اور نفرت کے ساتھ اسے جھٹکنے کے بجائے دیگر اہل علم سے رجوع کر کے دوسروں کا نقطہ نظر اور ان کے دلائل معلوم کر لیے جائیں۔ مختلف اہل علم میں سے جس کی بات درست لگے اسے بلاتعصب اختیار کرلیا جائے۔
یہی وہ طریقہ ہے جو قیامت کے دن ہمارے ایمان کا سب سے بڑا ثبوت بن جائے گا۔ اس بات کا ثبوت کہ ہماری وفاداری اپنے بڑوں کے لیے نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص تھی۔ یہی وہ ایمان ہے جو ہمارے معمولی سے اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت قیمتی کر دے گا۔