نصف صدی کا قصہ ۔ ابویحییٰ
پچاس برس کی مدت کہنے کو بہت طویل لگتی ہے۔ بقول حفیظ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں مگر یہ طویل مدت بھی گزر ہی گئی اور اب لگتا ہے کہ بس صبح و شام کا قصہ تھا اور کچھ نہیں۔ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّۃً أَوْ ضُحَاہَا۔
اپنے متعلق لکھنا شاید سب سے مشکل کام ہے۔ جو شخص جانتا ہو کہ کراماً کاتبین نے داستان حیات کے ہر ورق پر غفلت اور معصیت کی سیاہی کو نقش کر رکھا ہے، وہ اپنے بارے میں کچھ لکھنے کی ہمت کہاں سے لائے؟ مگر پچاس کے بعد جب موت زندگی سے زیادہ قریب ہوجاتی اور حسن عمل کی طاقت گھٹتی چلی جاتی ہے تو بندہ عاجز کے پاس اس کے سوا اور کیا راستہ ہے کہ ایک کریم کی باحیا نگاہوں سے اپنے اوراق زندگی کو دیکھے۔ اُس کریم کا علم نگاہ کی ہر خیانت اور دل کے ہر راز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، مگر اُس کی نگاہوں میں اتنی حیا ہے کہ بدکاری کی سیاہی سے لکھی گئی ہر سطر سے غض بصر کر کے گزر جاتا ہے۔ بس انھی باحیا نگاہوں پر ہر بےحیا کی نجات منحصر ہے۔ عمل نہ پہلے کوئی پاس تھا، نہ آئندہ ہی اپنی سوئے استعداد کی بنا پر کوئی امید نظر آتی ہے۔
پچاس برس کی تقسیم تو دس طرح ہوسکتی ہے، مگر موٹی تقسیم بیس اور تیس کی ہے۔ بیس برس تک حالات اور واقعات چکی کے دو پاٹوں کی طرح زندگی کو اپنے انداز میں پیستے رہے۔ باقی داستان کو چھوڑ دیجیے بس شعور کی عمر کو پہنچ کر یہ احساس ہوگیا کہ جو کچھ ہے ٹھیک نہیں ہے۔ اگلے تیس برس اسی ”ٹھیک“ کی تلاش میں گزرے۔ اور اب عمر رفتہ کے پچاس برس گزارنے کے بعد بس یہی ایک اطمینان ہے کہ یہ ”ٹھیک“، یہ حق اور یہ سچ پوری طرح جان چکا ہوں۔
دکھ صرف اتنا ہے کہ جب تک اس”ٹھیک“ کا علم ہوا، اعضا و قویٰ ساتھ چھوڑنے لگے۔ میرے احباب تیس برس کے سفر میں یہ کہہ کر مجھے سمجھاتے رہے you are burning the candle from both ends مگر شمع دو طرف سے نہ جلتی تو شاید یہ ”ٹھیک“ کبھی دریافت نہ ہوپاتا۔ یہی زندگی کو اس بے طرح گزارنے کا واحد عذر ہے۔ یہ ”ٹھیک“ کیا ہے…… اسے چند سطروں میں کیا بتاؤں؟ یہ تو حاصل زندگی ہے۔ یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جو کائنات کے ہر راز کو فاش کرنے، زندگی کی ہر الجھن کو سلجھانے، انسانیت کے ہر اندھیرے کو روشنی میں بدلنے، امت کے ہر مسئلے کو حل کرنے، قوم کے ہر زوال کو عروج میں بدلنے والا نور یزدانی ہے۔
جو چیز مجھے تیس برس بعد ملی وہ گھاس کے ڈھیر میں کھوئی ہوئی کوئی سوئی نہ تھی۔ یہ تو سربام روشن ایک چراغ تھا۔ مگر علم کی دنیا کا یہ مسئلہ ہے اس میں روشن چراغ نظر نہیں آتے۔ یہاں نکتہ آفرینی کی مانگ ہے۔ جز کو کل سمجھا جاتا ہے۔ رائی کا پربت بنایا جاتا ہے۔ کرن کو سورج سمجھا جاتا ہے۔ ہم بھی اسی کارِ لاحاصل میں الجھے رہے۔ پھر بھی صد شکر ہے کہ موت سے قبل یہ روشنی پالی۔ کتنے ہیں…… اور بے گنتی ہیں جو ایسے ہی دنیا سے چلے گئے۔
اس روشنی کو سمجھنے کے لیے خالق کا طریقہ تخلیق سمجھنا ضروری ہے۔ خدا نے جو کائنات بنائی ہے اس میں ہر سمت رنگارنگ نظارے اور لاتعداد رنگ ہیں، مگر بنیادی رنگ تین ہی ہیں۔ اس دنیا میں اربوں انسان ہیں۔ ہر اک کا چہرہ مختلف ہے۔ مگر ناک، کان، آنکھ، منہ، ٹھوڑی، پیشانی اور بالوں کی بہت سادہ بناوٹ سے انسانی چہرے کے ختم نہ ہونے والے نقش تخلیق پاتے ہیں۔ کائنات میں لامحدود مظاہر اس مادے کی کارفرمائی ہیں جو الیکٹرون، پروٹان اور نیوٹران کے بنیادی اور سادہ اجزا کی پیچیدہ ترکیب کے سوا کچھ نہیں۔ سب چھوڑیے کمپیوٹر کی یہ دنیا جس نے کل دنیا کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، یہ جس نظام پر چلتی ہے وہ صرف دو اعداد یعنی صفر اور ایک کی سادہ حقیقت سے جنم لیتی ہے۔
خدا کی ہر پیچیدہ تخلیق کے پیچھے یہی سادہ چیزیں ہیں جنھیں سمجھ لیا جائے تو مصور ہر رنگ بنا لیتا، سنگتراش ہر چہرہ تراش لیتا اور سائنسدان مادے کی ہر الجھن کو سلجھا لیتا ہے۔ انسانی معاشروں اور افراد کی ہر پیچیدگی کے حل کے لیے بھی خالق نے اسی سادہ تخلیقی منصوبے کو قرآن مجید کا موضوع بنا دیا ہے۔ ایمان اور اخلاق اور بس۔ یہی زندگی کے ہر مسئلے کا حل ہے۔ مگر جس بات کو مصور، سنگ تراش اور سائنسدان سمجھ لیتا ہے، فلسفی اور عالم نہیں سمجھ پاتا۔ وہ ہر پیچیدگی کو کسی پیچیدہ تر طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے۔ یہی افراد اور انسان کی بے سکونی کا اصل سبب ہے۔
قرآن کے اس سادہ ترین فارمولے کو ماننا، اس کو ہر چیز سے زیادہ اہم سمجھنا، دینی فکر میں اس کو اس کا مقام دلوانا اور اسی کی بنیاد پر افراد کی تربیت کرکے ان کی شخصیت کا تزکیہ کرنا وہ ”ٹھیک“ تھا جسے سمجھنے میں تیس برس لگے۔ اس ”ٹھیک“ کے نتیجے میں جنم لینے والے افراد جس گھر میں ہوں وہ گھر اور جس معاشرے میں ہوں وہ معاشرہ فلاح پاجاتا ہے۔
مگر اب جب یہ راز سمجھ میں آگیا ہے تو اندازہ ہوا کہ جسم ساتھ چھوڑنے لگا ہے۔ اسی ناتواں وجود کے ساتھ قرآن مجید کی بنیاد پر اس کام کی علمی اور فکری اساسات کو مرتب کرکے اسے ایک منظم انداز میں ضبط تحریر میں بھی لے آیا ہوں۔ تعلیمی کورسز میں بھی بدل رہا ہوں۔ مگر اس راز کو لوگوں سے منوانا اور مذہبی فکر میں اس کا درست مقام دلوانا ایک پوری جنگ ہے۔ اس کو افراد کی شخصیت کا حصہ بنانا ایک اور جنگ ہے۔ پچھلے تیس برس میں شمع کو دونوں طرف سے جلانے کے بعد اب زندگی کی جنگ لڑنا مشکل ہو رہا ہے کجا یہ کہ خارج میں کوئی جنگ لڑی جائے۔ مگر اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اس راز کو جاننے کے بعد سیاسی جھگڑوں، فنی موشگافیوں اور بحث و جدال کی ان لایعنی گھاٹیوں پر چڑھنے کی کوئی خواہش نہیں رہی ہے جن گھاٹیوں کو عبور کرنے کی کوششمیں میری قوم و ملت کے اہل علم و دانش کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔
اس لیے باقی زندگی جتنی بھی ہے، اسی راہ میں وقف ہے۔ اسی سادہ بات کے فروغ کے لیے…… جس کے بارے میں کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ فرد و انسانیت کے سارے مسائل حل کرسکتی ہے۔ زندگی اور موت کے مالک سے یہی فریاد ہے کہ باقی زندگی کا ہر لمحہ وہ اس راہ میں قبول کرلے اور کبھی اس راستے سے پاؤں نہ ڈگمگائیں کہ ہر دوسرا راستہ خدا سے دور کر دینے والا ہے۔
پچھلے تیس میں سے بیس برسوں میں فکری جدوجہد کے ساتھ کینیڈا سے پاکستان لوٹ کر ایک عملی جدوجہد بھی شروع کر دی۔ جدوجہد کی اس راہ میں جو گزری اس کا احوال کیا بتائیں؟ بس بتانے کی چیز خدا کا یہ کرم ہے کہ اس نے وہ احباب عطا کر دیے جو اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مگر یہ کام اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے چند لوگ ہرگز کافی نہیں۔ اس کے لیے اور بہت لوگوں کی ضرورت ہے۔ کاش ایمان واخلاق کی اس دعوت کو وہ اعلیٰ انسان مل جائیں جو صحابہ کرام کی طرح کل عالم میں اس پیغام کو پہنچا دیں۔
میری یہ تحریر اصلاً ایک دعوت ہے۔ وہ دعوت جو کبھی خود اس فقیر نے قبول کی تھی۔ تیس برس کے اس سفر کے آغاز میں اس عاجز نے پہلے مرحلے پر الحاد سے خدا تک کا سفر کیا تھا۔ پھر خدا سے اس راہ میں جو مانگا وہ دیتا رہا۔ جو پہلی چیز اس سے مانگی تھی وہ یہ تھی کہ وہ مجھے ان لوگوں تک پہنچا دے جو باقی سفر میں منزل کی طرف رہنمائی کریں۔
پھر دل کو تعصب کی ہر رمق سے پاک کرکے ہر در کھٹکھٹایا اور ہر پتھر کو الٹ دیا۔ اس کے بعد خدا نے دو لوگوں تک پہنچایا۔ ان دو میں سے پہلے نے ایک واقعہ کہیں لکھا تھا۔ یہ تحریر پچھلے کئی عشروں میں میرے لیے ایک یاددہانی بنی رہی۔
وہ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں نے پوٹاشیم سائنائڈ کا ذائقہ جاننا چاہا۔ یہ وہ زہر ہے جو لمحہ بھر میں انسان کو ختم کر دیتا ہے۔ ایک رضاکار نے خود کو پیش کیا۔ زہر زبان پر رکھا اور قلم ہاتھ میں اٹھایا۔ مگر ابھی S ہی لکھا تھا کہ وہ مر گیا۔ مسئلہ حل نہیں ہوسکا کہ انگریزی میں S کے حرف سے Salt بھی آتا ہے اور Sugar بھی۔ چنانچہ ایک اور رضاکار آیا۔ اس نے دوبارہ زہر کھایا اور قلم سے A لکھ دیا۔یوں معلوم ہوگیا کہ اس کا ذائقہ نمکیلا ہے۔
جب یہ واقعہ پڑھا تو طے کرلیا تھا کہ دوسری دفعہ زہر کھانے والا میں بنوں گا۔ مگر تیس برس کی مدت کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ دوسری دفعہ زہر کھا کر بھی مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ سچائی دریافت ہوگئی ہے۔ یعنی ایمان و اخلاق کے سادہ ترین حقائق ہر بند تالے کی چابی ہیں۔ مگر اس حقیقت کے ابلاغ، اس کو مسلمانوں کے فکر میں اہم ترین چیز بنانے اور اس کی بنیاد پر تربیت کا ایک نظم قائم کرنے کی جنگ میں اب کئی لوگوں کو زہر کھانا ہوگا۔
یہ تحریر ایک دعوت ہے جو اس امید پر لکھی گئی ہے کہ شاید مادیت، غفلت اور تعصب کے اس سیلاب میں کوئی سچا خدا پرست یہ زہر کھا کر اس جنگ کے لیے اٹھ جائے جو قیامت سے پہلے اس دھرتی پر لڑی جانے والی آخری جنگ ہوگی۔